بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں محرم میں نکالے جانے والے مذہبی جلوس میں شریک شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں میں تصادم ہوا ہے۔
سکیورٹی فورسز اور شہریوں میں تصادم کے بعد اتوار کے روز سرینگر کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
سیکورٹی فورسز نے جلوس کو روکنے کی کوشش کی۔ جلوس کے شرکا نے جب رُکنے سے انکار کیا تو سکیورٹی اہلکاروں نے شرکا پر آنسو گیس کے شیل پھینکے۔
جلوس میں شریک نوجوانوں کے مشتعل ہونے پر انہیں پلیٹ گن سے نشانہ بنایا گیا دوسری جانب جلوس کے شرکا نے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراو کیا۔
تصادم کے زیادہ تر واقعات سرینگر کے علاقوں ریناواری اور بڈگام میں پیش آئے۔
سکیورٹی حکام کی جانب سے جلوس کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ جلوس پانچ کلومیٹر لمبے روٹ سے نکالا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اہلکاروں نے ہیلمٹ پہننے کے ساتھ ساتھ بلٹ پروف جیکٹس بھی زیب تن کی ہوئی تھیں۔
اتوار کے روز پولیس نے سرینگر کے مرکزی چوراہے لال چوک اور اطراف میں کرفیو جیسی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔
سکیورٹی حکام نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹر' نے عینی شاہدین اور اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کی شام بھی شہریوں اور فورسز میں تصادم ہوا تھا۔ تصادم کے نتیجے میں 12 شہری اور 6 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے کہا ہے کہ امن و امان اور لوگوں کے تحفظ کے لیے پابندیاں ضروری ہیں۔
انھوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف احتجاج کی خبروں کو بھی مسترد کیا ہے۔
اجیت دوول کا کہنا ہے کہ پابندیاں بتدریج اٹھائی جا رہی ہیں اور صرف 10 پولیس اسٹیشنز کی حدود میں محدود پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اجیت دوول نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ دہشت گردوں کو بھارت میں داخل کرنے کی اپنی روش ترک کر دے تو پابندیاں بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔
قومی سلامتی کے مشیر کے بیان پر بھارت کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کی سزا کشمیری عوام کو کیوں دی جا رہی ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں اجیت دوول سے سوال کیا کہ جب تک پاکستان سرگرم رہے گا تو کیا اس وقت تک کشمیر کے لوگوں کو بند رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ بھارت کے دہشت گردی کے الزام کی پاکستان سختی سے تردید کرتا آیا ہے۔ تاہم اسلام آباد اس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی حق خود ارادیت میں ان کی ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔ جبکہ پاکستان بھارت کے آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی بھی سختی سے مخالفت کر رہا ہے۔