رسائی کے لنکس

پاکستان: مقامی کار ساز کمپنیاں پیداوار محدود کرنے پر مجبور کیوں؟


پاکستان میں رواں سال کے دوران کاروں کی فروخت کی شرح میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں رواں سال کے دوران کاروں کی فروخت کی شرح میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں رواں سال کے دوران کاروں کی فروخت کی شرح میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھی گئی ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان کی تین بڑی کار ساز کمپنیوں ہنڈا، سوزوکی اور ٹویوٹا فروخت میں کمی کے باعث اپنی پیداوار انتہائی محدود کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

ماہرین معیشت اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی آٹو پالیسی اور بعض کمپنیوں کی اجارہ داری سے مارکیٹ اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر 2018 سے اب تک ملک میں کاروں کی تیاری میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے جب کہ اگست 2019 میں بھی پاکستان بھر میں کاریں تیار کرنے والے کارخانوں نے محض نو ہزار 126 گاڑیاں تیار کیں جو گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں چھ ہزار 263 یونٹس کم ہے۔

موجودہ مالی سال کے پہلے دو ماہ میں سوزوکی کمپنی کی سیل میں 70 فیصد، ہنڈا کمپنی کی فروخت میں 68 فیصد جبکہ ٹویوٹا کمپنی کی فروخت میں 55 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر 2018 سے اب تک ملک میں کاروں کی تیاری میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ (فائل فوٹو)
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر 2018 سے اب تک ملک میں کاروں کی تیاری میں تقریباً 40 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ (فائل فوٹو)

ایک جانب جہاں ملک میں تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے وہیں بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی شرح میں بھی تقریباً 100 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

اس کمی کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے تجارتی خسارے میں کمی لانے کے لیے اپنائی گئی پالیسی بتائی جاتی ہے۔

پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کی پالیسیوں کے باعث گاڑیوں کی خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پندرہ جنوری 2019 کو حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او کے مطابق بیرون ملک سے پاکستان بھیجنے والے شخص کو اس کی کسٹم ڈیوٹی بھی وہیں سے ادا کرنا ہوگی۔

ایچ ایم شہزاد کے مطابق حکومت سے کئی مذاکرات کے بعد بھی وہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہے۔ حالانکہ گزشتہ سال جاپان سمیت دیگر ممالک سے درآمد کی گئی استعمال شدہ گاڑیوں نے ملکی خزانے میں 100 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس بھی جمع کرایا ہے۔

گاڑیوں کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے تجارتی خسارے میں کمی لانے کے لیے اپنائی گئی پالیسی بتائی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو)
گاڑیوں کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے تجارتی خسارے میں کمی لانے کے لیے اپنائی گئی پالیسی بتائی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو)

ایچ ایم شہزاد کے خیال میں اس فیصلے کے پیچھے مقامی طور پر گاڑیاں اسمبل کرنے والے صنعت کار ہیں جنہوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ باہر سے گاڑیوں کی درآمد کو تقریباً ناممکن بنا دیں جس سے مقامی صنعت اور ملازمتوں کو تحفظ ملے گا۔

آٹو سیکٹر سے وابستہ ماہرین کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 40 فی صد کے لگ بھگ کمی سے کاریں تیار کرنے والے اداروں کو گزشتہ سالوں میں قیمت بڑھانے کے بعد ایک بار پھر قیمتوں کو بڑھانا پڑا۔

یوں بیرون کاروں کی درآمد میں کمی کے ساتھ مقامی سطح پر تیار ہونے والی کاروں کی قیمت بڑھنے سے فروخت میں اضافہ ہونے کے بجائے مسلسل کمی ہی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی یہ تیسری بڑی صنعت تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہے۔

کیا بڑے اداروں کی اجارہ داری قائم ہے؟

ماہر معاشیات اور بی ایم کیپیٹل کے منیجنگ ڈائریکٹر مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں کی قیمت میں حالیہ عرصے کے دوران 40 فی صد تک اضافہ دیکھا گیا جو 25 فی صد سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مقامی اسمبلرز نے کارخانے لگانے کے 25 سے 30 سال بعد بھی درآمد شدہ مصنوعات پر ہی انحصار کیا ہوا ہے۔

دوسری جانب یہی مقامی صنعتیں حکومت سے مراعات اور سبسڈی حاصل کر کے اس کے پیچھے چھپتی بھی رہی ہیں۔

مزمل اسلم کے مطابق ان کمپنیوں نے ملک کے آٹو سیکٹر میں مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث وہ کسی طور پر اپنا منافع کم کرنے یا اپنی صلاحیتیں بڑھانے کو تیار نہیں۔

ماہرین کے مطابق مقامی صنعتیں حکومت سے مراعات اور سبسڈی حاصل کر کے اس کے پیچھے چھپتی بھی رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
ماہرین کے مطابق مقامی صنعتیں حکومت سے مراعات اور سبسڈی حاصل کر کے اس کے پیچھے چھپتی بھی رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والی ہر گاڑی میں سے 38 فی صد ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو جاتا ہے جبکہ 62 فی صد مقامی اسمبلر اس پر چارج کرتا ہے جس میں اس کا منافع بھی شامل ہوتا ہے۔

جب ڈالر کی قیمت بڑھنے سے خام مال مہنگا ہوا تو ان کمپنیوں نے اپنے منافع کی شرح کو کسی صورت کم نہیں کیا اور اس پر کوئی سمجھوتا یا خود کو مقابلے کے لیے بھی تیار نہیں کیا۔

مقامی کمپنیوں نے بیرون ملک استعمال شدہ گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹی عائد ہونے پر اپنے کاروبار کے لیے حکومت سے خوب مراعات بھی حاصل کی ہیں۔

ماہرین معاشیات کے مطابق جب مقامی کاریں زیادہ مہنگی فروخت ہوں اور ان میں حفاظتی انتظامات اور معیار بھی بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں سے کم ہو تو ایسے میں حکومت کی جانب سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے وقت بیرون ملک ہی سے ڈیوٹی کی ادائیگی کا فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد فیصلہ تھا۔

مقامی کمپنیوں نے بیرون ملک استعمال شدہ گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹی عائد ہونے پر اپنے کاروبار کے لیے حکومت سے خوب مراعات بھی حاصل کی ہیں۔ (فائل فوٹو)
مقامی کمپنیوں نے بیرون ملک استعمال شدہ گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹی عائد ہونے پر اپنے کاروبار کے لیے حکومت سے خوب مراعات بھی حاصل کی ہیں۔ (فائل فوٹو)

رواں سال جنوری میں عائد کی گئی اس نئی پابندی کے ذریعے یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص گاڑی بھیج رہا ہے وہ ڈیوٹی بھی اپنے ہی اکاونٹ سے بھیجے جس کی یہاں تصدیق ہوگی اور بینک کی جانب سے تصدیق ہونے کے بعد گاڑی بندرگاہ سے کلئیر ہوگی۔

یہ ایک لمبا اور تکلیف دہ عمل تھا جس کا مقصد ایک بار پھر مقامی اسمبلرز کو فائدہ پہنچانا اور اُنہیں سپورٹ کرنا تھا۔

پاکستان اس سے قبل سالانہ 75 ہزار توانائی کی بچت کرنے والی گاڑیاں درآمد کرتا تھا اور یہ گاڑیاں ملک کا ایندھن کی مد میں خرچ ہونے والا خطیر زرمبادلہ بچانے میں کم کردار ادا کرتی ہیں۔

ماہرین کے خیال میں مقامی اسمبلرز کے ذہن میں یہ تھا کہ درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عائد کر کے ان 75 ہزار گاڑیوں کا شیئر بھی انہی کو مل جائے گا اور انہوں نے اسی وجہ سے بلا جھجھک گاڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھائیں۔

لیکن یہ اندازے اِس وقت غلط ثابت ہو رہے ہیں اور مقامی اسمبلرز کی تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ اور انہیں اس پابندی کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہوا۔

مقامی اسمبلرز کی تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ (فائل فوٹو)
مقامی اسمبلرز کی تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔ (فائل فوٹو)

مزمل اسلم کے مطابق اس صورت حال میں عوام کو آپشنز نہیں مل رہے، نئی مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاں مجبوراً لینا پڑ رہی ہیں اور جس کی استطاعت نہیں ہے اسے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ صرف مقامی تیار کردہ نئی گاڑی خریدے۔

ماہرین معاشیات کے مطابق ملک میں آخری بار آٹو پالیسی 2016 میں جاری کی گئی تھی جو 2021 تک برقرار رہے گی۔ اور ایسی صورت حال میں ایسا نہیں لگتا کہ فوری طور پر صورت حال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی۔

ماہر معاشیات مزمل اسلم کے خیال میں آٹو انڈسٹری میں اس وقت کی بحرانی کیفیت کی بنیادی وجہ حکومت کی کمزوریاں ہیں۔ جس کے باعث پاکستان میں آٹو انڈسٹری اسمبلر سے مینوفیکچرر نہ بن سکی۔

اگر موجودہ آٹو پالیسی کو وقت سے پہلے تبدیل کیا گیا تو اس پر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں عدالتوں سے حکم امتناع حاصل کرسکتی ہیں اور اس سے یہ تاثر بھی پھیلتا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی پالیسیوں میں تسلسل نہ رکھنے کے باعث یہاں سرمایہ کاری ایک مشکل ہے۔

حکومت نے موجودہ لاگو پالیسی میں جو ٹیکس مراعات دی ہیں ان کے بعض فوائد حکومت کو بھی ٹیکس ریونیو میں اضافے کی صورت میں ملے ہیں۔ لیکن حالات ایسے پیدا کردیے گئے ہیں کہ اس شعبے میں نئے سرمایہ کار بھی آنے سے کترا رہے ہیں۔

حکومت نے موجودہ لاگو پالیسی میں جو ٹیکس مراعات دی ہیں ان کے بعض فوائد حکومت کو بھی ٹیکس ریونیو میں اضافے کی صورت میں ملے ہیں۔ (فائل فوٹو)
حکومت نے موجودہ لاگو پالیسی میں جو ٹیکس مراعات دی ہیں ان کے بعض فوائد حکومت کو بھی ٹیکس ریونیو میں اضافے کی صورت میں ملے ہیں۔ (فائل فوٹو)

دوسری جانب پاکستان میں تقریباً 18 لاکھ براہ راست جبکہ بلواسطہ بھی 30 لاکھ کے قریب افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔

بعض ماہرین اس صنعت کی ترقی اور تحفظ کو جہاں ایک جانب ضروری سمجھتے ہیں وہیں اسے اپنی بقاء کے لیے اپنی مصنوعات میں جدت لانے، اسے معیاری بنانے اور لوگوں کی پہنچ میں رکھنے جیسے چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں۔

گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی ایک اور وجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی مہم کو بھی دیکھا جارہا ہے۔ کیونکہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے محتاط ہیں کہ اگر وہ نئی گاڑی خریدنے جائیں گے تو ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے۔ جبکہ ایف بی آر کو معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے بہرحال اس عمل کو مکمل کرنا ضروری ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG