حکومت کی کفایت شعاری مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس کی 62 گاڑیاں 18 کروڑ میں نیلام ہوگئیں جب کہ 40 گاڑیاں رہ گئیں۔
وزیراعظم ہاؤس کے وسیع و عریض میدان میں کھڑی ان گاڑیوں کے خریدار دور دور سے آئے لیکن قیمتوں پر اکثر لوگون نے شکایت کی۔
شام تک جاری رہنے والی اس نیلامی کے دوران چھوٹی اور پاکستان میں بننے والی گاڑیاں باآسانی فروخت ہو گئیں جبکہ بڑی اور مہنگی گاڑیاں جن کی سب سے زیادہ تشہیر کی جارہی تھی وہ فروخت نہ ہو سکیں۔
بولی کے عمل کے دوران کئی بار ایسا بھی ہوا کہ حتمی بولی دینے کے بعد آخری بولی دینے والے کو جب ڈھونڈا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ شخص پنڈال سے ہی جا چکا ہے۔
ایک خریدار نے 61 روپے کی بولی دیکر ایک لینڈ کروزر خرید لی لیکن بعد میں جب انہیں بتایا گیا کہ اس پر ایک کروڑ 30 لاکھ روپے ٹیکس الگ سے ادا کرنا ہو گا تو وہ خریدنے سے انکاری ہو گئے۔
وزیر اعظم آفس کے ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ جاری نیلامی میں 102 گاڑیوں میں سے 62 گاڑیاں فروخت ہو گئیں جب کہ 40 گاڑیاں نیلام نہیں ہو سکیں۔
نیلامی کمیٹی کے مطابق 27 بلٹ پروف گاڑیوں میں سے صرف 7 گاڑیاں 12 کروڑ 46 لاکھ میں نیلام ہوئیں اور وزیر اعظم ہاؤس کی 2 بم پروف گاڑیاں نیلام نہ ہو سکیں۔
نیلامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ 62 گاڑیوں کی نیلامی سے 18 کروڑ روپے حاصل ہوئے ہیں جب کہ ایک گاڑی کے خریدار نے پیشگی رقم ادا نہیں کی۔
مرسڈیز کار خریدنے کے لیے آئے ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے خواجہ سہیل منصور بھی وزیراعظم ہاؤس آئے۔ انہوں نے سب سے مہنگی کار مرسڈیز مے بیک کے لیے بولی میں حصہ لینا چاہا لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ نیلامی کمیٹی کی طرف سے اس کی ابتدائی قیمت 16 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے تو انہوں نے بولی میں حصہ لینے کا ارادہ ترک کردیا۔ خواجہ سہیل منصور نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس گاڑی کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہے، پاکستان میں اس گاڑی پر ٹیکس ساڑھے چار سو فیصد ہے، اس حساب سے بھی دیکھا جائے تو اس کی قیمت سات کروڑ سے زائد نہیں اور یہاں سولہ کروڑ روپے مانگے جارہے ہیں۔ سہیل منصور نے منتظمین کو اپنی آخری آفر نو کروڑ روپے دی اور کہا کہ اگر کوئی اس سے زیادہ قیمت دے تو بے شک بیچ دیں لیکن اگر اس قیمت پر دینا ہو تو مجھ سے رابطہ کرلیں۔
بعض گاڑیوں کے لیے خریداروں میں مقابلہ بھی دیکھنے میں آیا۔ سب سے پہلی گاڑی پاکستانی کرولا آلٹس تھی جو 11 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی اور سب سے سستی گاڑی مہران کار تھی جو دو لاکھ95 ہزار میں فروخت ہوئی۔
راول پنڈی کے ہشام خان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی حالت اتنی اچھی نہیں جس قدر ہم سوچ کرآئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر گاڑیاں بہت زیادہ پرانے ماڈل کی ہیں۔
بولی کے دوران پانچ ہزار سی سی کی دو بی ایم ڈبلیو جیپوں کے لئے کوئی بھی خریدار سامنے نہ آیا۔ اس گاڑی کے خریدار کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے جبکہ چودہ مرسڈیز بینز گاڑیوں کی بھی کسی نے بولی نہیں لگائی۔
نیلامی کے لئے سعودی شہزادے کی لیکسز جیپ بھی رکھی گئی تھی، یہ گاڑی شہزادہ تبوک فہد بن سلطان نے وزیرِاعظم شوکت عزیز کو تحفے میں دی تھی، مگر یہ گاڑی بھی نیلام نہ ہو سکی۔
وزیرِاعظم ہاؤس کے ایڈمنسٹریٹر میجر آصف نے بتایا کہ ٹیکس اور ڈیوٹی زیادہ ہونے کے باعث کچھ گاڑیوں کی نیلامی نہیں ہوئی، ایسی گاڑیوں کے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔
وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کفایت شعاری پالیسی کے تحت وزیر اعظم ہاؤس کے زیر استعمال اضافی گاڑیوں کی نیلامی کا حکم دیا تھا۔
گاڑیوں کے علاوہ حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس میں موجود 8 بھینسیں اور 4 ہیلی کاپٹرز بھی نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاق کے بعد اب پنجاب حکومت نے بھی 110 گاڑیاں نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے رپورٹ تیار کرنا شروع کردی جب ک سرکاری محکموں سے گاڑیوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کردی گئی ہیں۔