رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کا سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بننے کا واضح امکان


  • اٹھارہ اُمیدواروں کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد سینیٹ کی 30 نشستوں پر پولنگ دو اپریل کو ہو گی۔
  • حکمراں اتحاد دو تہائی اکثریت کے لیے کوشاں، پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بننے کے لیے پراُمید

پاکستان میں پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ کی 48 خالی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں 18 نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں جب کہ باقی ماندہ 30 نشستوں کے لیے دو اپریل کو 59 اُمیدوار مدِمقابل ہوں گے۔

دو اپریل کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد سینیٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنے کا واضح امکان ہے۔

فاٹا کی نشستیں ختم ہونے، مسلم لیگ (فنکشنل) جماعتِ اسلامی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کی سینیٹ میں نمائندگی ختم ہونے کے امکانات ہیں۔

مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکمراں اتحاد کو زیادہ نشستیں حاصل کرنا ہوں گی یا جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ساتھ ملانا ہو گا۔

سینیٹ کے 48 ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 18، مسلم لیگ (ن) کے چھ، پیپلزپارٹی کے نو، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تین، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے دو، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے چار، ایم کیو ایم کے دو اور مسلم لیگ (ق) کا ایک سینیٹر ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 مارچ 2024 کو سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں پر دو اپریل کو انتخابات کرانے کے لیے 14 مارچ کو شیڈول جاری کیا گیا تھا جس میں صوبہ سندھ اور پنجاب کی 12، 12 جب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی 11، 11 نشستیں ہیں۔ اسلام آباد کی دو نشستوں پر بھی الیکشن ہو گا۔

اب تک 18 نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں جن میں بلوچستان کے 11 سینیٹرز بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کی سات جنرل نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے سیدال خان، شاہ زیب درانی، پیپلزپارٹی کے سردار عمر گرگیج، جے یو آئی کے احمد خان، اے این پی اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار ایمل ولی خان شامل ہیں۔

نیشنل پارٹی کے جان محمد اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے سابق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ بھی بلامقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔

بلوچستان کی سینیٹ میں دو خواتین کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کی حسنہ بانو اور مسلم لیگ (ن) کی راحت جمالی بلا مقابلہ کامیاب ہوئی ہیں۔ اس طرح بلوچستان کی سینیٹ میں ٹیکنو کریٹ اور علما کے لیے دو نشستوں پر پیپلز پارٹی کے بلال احمد خان اور جے یو آئی کے مولانا واسع کامیاب ہو چکے ہیں۔

صوبائی الیکشن الیکشن کمیشن بلوچستان کے ترجمان نعیم احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کے بلوچستان کی سینیٹ کی 11 نشستوں پر ہی امیدواران بلا مقابلہ کامیاب ہونے کے باعث اب دو اپریل کو بلوچستان اسمبلی میں سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ نہیں ہو گی۔

سینیٹ انتخابات میں بلامقابلہ کامیاب ہونے والے اراکین میں پنجاب کے سات اراکین بھی شامل ہیں۔ صوبہ پنجاب کی کل 12 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں جن میں سے سات جنرل نشستیں ہیں اور ان تمام ساتوں نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ہیں۔

ان میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید، احد چیمہ، طلال چوہدری اور ناصر محمود بھی کامیاب امیدواروں میں شامل ہیں۔

سابق بیورو کریٹ احد چیمہ کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی۔ اسی طرح وزیرِ داخلہ محسن نقوی بھی جن سیاسی جماعتوں کی حمایت سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ محسن نقوی کا کوئی سیاسی تعلق نہیں ہے۔

کامیاب امیدواروں میں مجلس وحدت المسلمین کے راجہ ناصر عباس اور حامد خان بھی شامل ہیں جو سنی اتحاد کونسل کی حمایت سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔

سینیٹ میں صوبہ پنجاب کی خواتین کی دو نشستوں پر چار امیدوار میدان میں ہیں۔ اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر تین امیدوار اور اقلیت کی ایک نشست پر دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔

اگر حکمران اتحاد پنجاب میں متحد رہے اور مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت سینیٹ انتخابات میں اپنے اراکین پنجاب اسمبلی سے ووٹ کرانے میں کامیاب ہو جائے تو خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو، دو نشستوں کے ساتھ اقلیت کی بھی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔

صوبہ سندھ میں سات جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی دو، دو اور اقلیت کی ایک نشست پر انتخابات ہوں گے۔

اگر آزاد امیدوار فیصل واوڈا کو پیپلز پارٹی کے اراکین نے بھی ووٹ دیا تو اس صورت میں پیپلز پارٹی کو سندھ کی سات جنرل نشستوں میں سے پانچ مل سکتی ہیں اور ایم کیو ایم کو ایک سیٹ ملے گی۔

اگر فیصل واوڈا آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کو پانچ کی جگہ چھ جنرل نشستیں مل سکتی ہیں۔

اسی طرح سندھ میں خواتین، ٹیکنوکریٹس کی دو، دو نشستوں اور اقلیت کی ایک نشست پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔

سینیٹ انتخابات میں دلچسپ مقابلہ صوبہ خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر ہونے کا امکان ہے۔ کے پی کے اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار پانے والے اراکین اب تک حلف نہیں اٹھا سکے ہیں۔

الیکشن کمیشن اپنے فیصلے میں واضح کر چکا ہے کہ اگر اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نو منتخب اراکین سے حلف نہیں لیتے تو الیکشن کمیشن صوبے میں سینیٹ انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور ہوگا۔

چناں چہ اگر خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی ہوئے تو دو اپریل کے الیکشن کے بعد عید سے قبل ہی نو منتخب سینیٹرز کے حلف کے ساتھ سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر انتخابات ہونے کا بھی امکان ہے۔

اس طرح خیبرپختونخوا کے اراکین چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔

اگر پارٹی پوزیشن کے حساب سے دیکھیں تو خیبرپختونخوا میں کی کل 11 نشستوں میں سے چھ یا سات پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اور اگر وفاق میں حکمران اتحاد کے ساتھ جے یو آئی کے درمیان سینیٹ انتخابات میں قائم ہونے والا اتحاد قائم نہیں رہا تو مزید ایک یا دو نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کا امکان ہے۔

دو اپریل کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ فنکشنل، جماعتِ اسلامی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔

اگر خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صرف سات اراکین بھی کامیاب ہوئے تو سینیٹ میں پی ٹی آئی اور ان کے حمایت یافتہ اراکین کی تعداد 27 تک پہنچ سکتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت پی ٹی آئی کے 18 اراکین سینیٹ میں موجود ہیں۔

اس طرح سینیٹ انتخابات کے بعد ایوانِ بالا میں پی ٹی آئی کے سنگل لارجر پارٹی بننے کے واضع امکانات موجود ہیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ سینیٹرز پیپلز پارٹی کے ہو سکتے ہیں جن کی تعداد 24 سے 25 تک پہنچ سکتی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں نو اراکین ہیں۔

حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل چکی ہے مگر آئین میں ترامیم کرنے اور بڑے فیصلوں کے لیے اسے سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت چاہیے۔

دو اپریل کے انتخابات کے بعد سینیٹ میں کل اراکین کی تعداد کم ہو کر 96 ہو جائے گی جس کے مطابق سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین درکار ہوں گے۔ مگر اس وقت حکومت مخالف اتحاد میں پی ٹی آئی کے 27، جے یو آئی کے چھ، بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کے ایک، ایک سینیٹر شامل کیے جائیں تو ان کی مجموعی تعداد 35 بنتی ہے۔

چناں چہ اگر حکمران اتحاد سینیٹ انتخابات میں خیبرپختونخوا سے زیادہ نشستیں لے پایا تو اس کے لیے آسانی ہے، ورنہ اسے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے جے یو آئی کو ساتھ ملانا ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG