امریکہ کے صدارتی انتخاب میں چار ماہ باقی ہیں۔ انتخابی مہم نے ابھی زور نہیں پکڑا۔ لیکن، رائے عامہ کے جائزے یہ بتا رہے ہیں کی امریکی عوام کس امیدوار کے حق میں زیادہ ہیں۔ ان جائزوں میں وہ ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں عام طور سے کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔
رائے عامہ کے ان پیشگی جائزوں سے امیدواروں کو بھی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کن باتوں پر زیادہ توجہ دیں اور یہ سمجھیں کے ان کے ووٹرز کے کیا مطالبات ہیں۔
بہت سے معروف اور شہرت یافتہ اداروں نے اب تک جو مختلف سروے کیے ہیں ان میں جو بائیڈن کو اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے۔ ان میں قومی سطح کے سروے اور کانٹے کے متوقع مقابلے والی ریاستوں کے جائزے شامل ہیں۔
ایک تجزیہ کار جیکب روباشکن کہتے ہیں کہ اب تک تو یہی نظر آرہا ہے کہ صدر ہار جائیں گے۔
پچھلے سال ستمبر میں یہ واضح نہیں تھا کہ جو بائیڈن ہی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہوں گے۔ اس وقت محض مفروضے پر کیے جانے والے سروے میں بائیڈن کو صدر ٹرمپ کے مقابلے میں ساڑھے نو فی صد پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔
فروری میں صدر ٹرمپ مواخذے کی کارروائی سے بچ نکلے اور ابھی کرونا وائرس کی وبا نےبھی اتنا زور نہیں پکڑا تھا، اس وقت بھی بائیڈن کو نو پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔
تجزیہ کار جیکب روباشکن کہتے ہیں کہ یہ جائزے آپ کو بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ لوگوں کے عمومی رجحان کے عکاس ہوتے ہیں۔ مگر جیسے جیسے انتخاب قریب آتا جاتا ہے یہ جائزے قطعی پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں۔
جیکب روباشکن 'ان سائیڈ الیکشن' میں رپورٹر اور تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے رائے عامہ کے جائزے ایک مخصوص وقت کے عکاس ہوتے ہیں۔ تین نومبر یعنی صدارتی انتخاب کے دن بھی ووٹرز کی رائے بدل سکتی ہے۔
صدارتی دوڑ میں بہت کچھ انحصار اس پر ہوتا ہے کہ سینیٹ میں کس پارٹی کی اکثریت ہوگی۔ ممکن ہے کہ قومی سطح پر بائٰیڈن کو بہت بڑی برتری ملے مگر ری پبلکن ریاستوں میں یہ سبقت سکڑ جائے۔
پھر یہ ہے کہ سینیٹ کی نشستوں کے لیے ہونے والے انتخاب میں بائیڈن کا ووٹرز ڈیموکریٹ امیدوار کو ووٹ نہ دے۔
تجزیہ کار جیکب روباشکن کہتے ہیں کہ امریکہ کا انتخاب حساب کتاب کا ایک پیچیدہ کھیل ہے۔ اور اس میں وہی فتح یاب ہوتا ہے جسے اس کے داو پیچ آتے ہیں۔ پولنگ کے موجودہ طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے روباشکن کہتے ہیں کہ فون پر کیے جانے والے یہ سروے آپریٹرز کے ذریعے ہوتے ہیں ان میں ضروری نہیں کہ ووٹرز ہر سوال کا درست جواب دے۔
اس سلسلے میں براہ راست سروے کو بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہ مہنگا پڑتا ہے اور سروے کے اکثر ادارے اسے استعمال نہیں کرتے۔
ماہرین سیاسیات یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سروے میں کتنے لوگ شامل تھے۔ جتنے لوگ کم ہوں گے غلطی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ پھر جنس، نسل، جغرافیہ، آمدنی اور تعلیمی سطحوں کے درمیان توازن کو بھی جانچا جاتا ہے۔
تجزیہ کار جیکب روباشکن کہتے ہیں کہ دو ہزار سولہ میں تعلیم ایک اہم عنصر تھی، اور اس کی بنیاد پر پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ کم پڑھے لکھے امریکیوں کی اکثریت نے ٹرنپ کو ووٹ دیا اور بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں نے ہیلری کلنٹن کو۔ مگر بہت سے جائزوں میں اس تعلیمی پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا، چنانچہ ان کی پیش گوئیاں درست ثابت نہیں ہوئیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ کا منفرد الکٹورل نظام کا انحصار ہر ریاست پر ہوتا ہے، ہر ریاست کے الکٹورز ہوتے ہیں، جن سے الکٹورل کالج بنتا ہے اور پھر جو امیدوار دو سو ستر الکٹورل ووٹ حاصل کرتا ہے وہی اگلے چار برسوں کے لیے امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔