رسائی کے لنکس

برما: نسلی گروپ انتخابات سے باہر


Stuffed animals and a sign calling for prayer rest at the base of a tree near the Newtown Village Cemetery in Newtown, Conn., Dec. 17, 2012.
Stuffed animals and a sign calling for prayer rest at the base of a tree near the Newtown Village Cemetery in Newtown, Conn., Dec. 17, 2012.

برما کی فوجی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں مشرقی سرحد پر واقع کئی قصبوں میں پولنگ اسٹیشن قائم نہیں کرے گی۔ یہ وہ قصبے ہیں جن پر نسلی عسکریت پسندوں کا کنٹرول ہے۔

برما کے الیکشن کمشن کے مطابق کاچن، کین ، مون اور شان کی ریاستوں کے کئی قصبوں اور وا کے زیر کنٹرول علاقے میں انتخابات منسوخ کردیے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم آلٹرنیٹو آسیان نیٹ ورک کی ایک ترجمان ڈیبی سٹوتھارٹ نے کہا ہے کہ ان منصوبو ں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت ان نسلی گروپوں کو، جونہیں چاہتے کہ فوج بدستور اقتدار میں رہے، رائے دہی کے حق سے محروم رکھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اس لحاظ سے ایک بہت بری علامت ہے کہ یہ انتخابات مفاہمت کے لیے کچھ گنجائش پیدا کرنے کی بجائے برما کے تنازعات کی اصل وجوہات میں مزید شدت لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

7 نومبر کو ہونے والے انتخابات ملک میں 20 سال کے عرصے کے پہلے انتخابات ہوں گے۔ لیکن 2008ء کے آئین کے تحت، پارلیمنٹ کی ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لیے مختص ہوں گی ، جو ملک پر لگ بھگ 50 برسوں سے حکومت کررہی ہے۔

برما میں فورم فار ڈیموکریسی کے ایک عہدے دار تھونگ لین آنگ کا کہنا ہے کہ مختلف کمیونیٹز کو انتخابات سے الگ رکھنے کے حکومتی منصوبے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اسے کئی نسلی ملیشیاؤں کی جانب سے انہیں سرحدی حفاظتی فوج میں شرکت کے لیے مخالفت کا سامنا ہے۔

نسلی علاقوں میں کا مسئلہ یہ ہے کہ فوج وہاں اس لیے کنٹرول کرسکتی کیونکہ بہت سے نسلی گروپ سرحدی حفاظتی فوج میں شامل ہونے سے انکار کررہے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلے سے بچنے کے لیے کہ حکومت کے پاس مکمل کنٹرول نہیں ہے، وہ وہاں الیکشن کرانا نہیں چاہتے۔ اس لیے وہاں پولنگ بوتھ نہیں ہوں گے اور ووٹ نہیں ڈالے جائیں گے۔

اگست کے مہینے میں ریاست کین میں نسلی مون فورسز کئی دوسرے نسلی گروپوں کی ملیشیاؤں کی طرح سرحد محافظوں میں شامل ہوگئی تھی۔

لیکن کئی دوسری ملیشیائیں ایسا کرنے پر تیار نہیں ہیں اور انہوں نےمرکزی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر ان پر دباؤ ڈالا گیا تو اس کے خلاف لڑائی کریں گے۔

کئی عشروں تک 20 سے زیادہ مختلف نسلی گروپ برما کی مرکزی حکومت کے ساتھ برسرپیکار رہ چکے ہیں۔ لیکن گذشتہ 15 برسوں کے دوران کئی ایک گروپوں نے امن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن امن کی نوعیت کمزور رہی ہے اور برما حکومت کی کئی دوسرے گروپوں کے ساتھ لڑائی جاری ہے۔

برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات شفاف ہوں گے۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی مغربی ممالک کہتے ہیں کہ یہ انتخابات شرم ناک ہیں اور فوج کی جانب سے اپنے اقتدار کو توسیع دینے کے منصوبوں کا حصہ ہیں۔

حزب مخالف کی اہم جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ، نومبر کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی کیونکہ قوانین اس سے اپنی زیر حراست راہنما آنگ ساں سوچی سمیت کئی ارکان کو خارج کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG