رسائی کے لنکس

برما میں 20 سال بعد عام انتخابات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

برما میں اتوار کو بیس برس کے دوران پہلی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے لیکن ناقدین کی رائے میں یہ ملک کے فوجی حکمرانوں کو اقتدار میں رکھنے کی کوشش ہیں۔

حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے کہ اِن سے متعلق قوانین غیر منصفانہ ہیں، لیکن دیگر کئی چھوٹی جماعتیں نظام میں تبدیلی کی اُمید کے ساتھ اِن میں حصہ لے رہی ہیں۔

عین اُس وقت جب برما میں ووٹنگ کا آغاز ہوا، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے آسٹریلیا کے شہر ملبرن میں یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب میں کہا کہ غیر شفاف انتخابی عمل فوجی حکومت کی زیادتیوں کو افشا کرتا ہے۔

برما کے قومی آئین کے تحت پارلیمان کی ایک چوتھائی نشستیں ملک کے فوجی رہنماؤں کے لیے مخصوص ہیں جب کہ انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر امیدواروں کا تعلق فوج کی حمایت یافتہ جماعت ’یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘ سے ہے۔

اتوار کو ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے ہوا اور یہ سلسلہ دس گھنٹے تک جاری رہے گا۔ ملک میں اہل رائے دہندگان کی تعداد تقریباً دو کروڑ نوے لاکھ ہے۔

حکام نے انتخابی عمل کا جائزہ لینے کی غرض سے برما میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے بین الاقوامی معاینہ کاروں اور صحافیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے ہی معقول تعداد میں سفارت کار اور میڈیا کے نمائندے موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG