ایک بین الاقوامی امدادی ادارے نے کہاہے کہ پچھلے ہفتے برما کے مشرقی حصے میں زلزلے سے، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی،وہاں درپیش مشکلات کے باعث امدادی سرگرمیوں کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کا کہناہے کہ مختلف امدادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 32 رضاکار برما کی ریاست شان کے ان متاثرہ علاقوں سے ،جہاں 24 مارچ کو 6.8 شدت کازلزلہ آیاتھا، چلے گئے ہیں۔
انسانی ہمدردی کے امور میں تعاون سے متعلق اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے وفد کے سربراہ بیرنڈ شیکل کے حوالے سے کہا ہے کہ امدادی سرگرمیوں کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جن میں پہاڑی راستے، مقامی بولیاں اور اقلیتی نسلی تنظیموں کی طویل عرصے جاری شورش شامل ہے۔
تاہم شیکل کا کہنا ہے کہ ان کا یہ خیال نہیں ہے کہ زلزلے سے ڈرامائی طورپرسرکاری اعدادوشمار سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔برما کی سرکاری رپورٹوں میں بتایا گیاتھا کہ زلزلے سے کم ازکم 70 افراد ہلاک اور سینکڑوں گھر تباہ ہوئے تھے۔
امدادی تنظیموں نے زلزلے کے بعد اس کے نقصانات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی امداد کے لیے برمی حکام کے فوری ردعمل کو سراہاہے۔ عیسائی امدادی تنظیم ورلڈ ویژن کا کہناہے کہ وہ برمی حکومت کی فوری اپیل کے جواب میں متاثرہ علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو خواک، پینے کا پانی اور پناہ گاہیں فراہم کرچکی ہے۔
امدادی تنظیموں کا یہ بھی کہناہے کہ برمی حکومت ان کے ساتھ ہلاکتوں اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچے والے نقصانات سے متعلق معلومات کا تبادلہ بھی کررہی ہے۔
جب کہ دوسری جانب برما کی فوجی حکومت کو 2008ء میں تباہ کن سمندری طوفان کے بعد، جس میں لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں اپنے گھروں سے محروم ہوگئے تھے ، اس لیے بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس نے غیر ملکی امداد کوکئی ہفتوں تک متاثرین تک پہنچنے سےروکے رکھا تھا۔