کراچی کے علاقے لیاری نیا آباد میں ایک رہائشی عمارت منہدم ہونے سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق دو افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں، حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عمارت کے ملبے کے نیچے ایک درجن کے قریب افراد موجود ہو سکتے ہیں۔
ریسکیو ٹیمیں رات گئے تک امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہیں اور لوگوں کو ملبے سے نکلانے کا کام جاری رہا۔ رینجرز اور فوج کے اہل کاروں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ملبہ ہٹانے کے لئے بھاری مشینری سانحہ کے مقام پر پہنچائی گئی۔ تاہم علاقے میں گنجان آبادی، پتلی گلیوں اور اندھیرے کے باعث امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا رہا۔
ایس ایس پی سٹی پولیس مقدس حیدر کا کہنا ہے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے عمارت کے خستہ حال ہونے پر وہاں رہنے والوں کو پہلے ہی نوٹس جاری کر دیے گئے تھے۔ اور اس عمارت سے کئی خاندان اپنے فلیٹس خالی کر کے جا چکے تھے۔
اتوارکی صبح عمارت میں ایک اور دراڑ آنے کے باعث بھی عمارت کے کئی گھرخالی ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے باوجود کچھ خاندان اب بھی اس عمارت ہی میں مقیم تھے۔ اس لیے فی الحال ابھی حتمی طور پرکچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمارت کے ملبے تلے کتنے افرد موجود ہیں۔
ادھر وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ سید ناصرحسین شاہ نے بھی لیاری میں گرنے والی عمارت پر جاری ریسکیو کام کا جائزہ لیا اور کہا کہ حادثہ میں زخمی ہونے والوں کو فوری طبی امداد کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
وزیر بلدیات کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے فوری احکامات جاری کر دیئے ہیں، حکومت کی پہلی ترجیح ملبے کے نیچے موجود افراد کو تلاش کر کے نکالنا ہے، جب کہ عمارت کے منہدم ہونے کے حوالے سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فوری تحقیقات شروع کرنے کے احکامات بھی دے دیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق اگر اس میں کسی کی کوتاہی ہوئی تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائےگی۔
تاہم یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عمارت گرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ صرف چار ماہ کے دوران رہائشی عمارت گرنے اور اس سے ہلاکتوں کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔
مارچ میں کراچی کے علاقے رضویہ سوسائٹی میں ایک رہائشی عمارت کے دو دیگر عمارتوں پر گرنے سے خواتین اور بچوں سمیت 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جنوری میں سکھر میں ایک رہائشی عمارت گرنے سے دس افراد ہلاک اور 18 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اسی طرح دسمبر میں کراچی ہی کے اولڈ سٹی ایریا میں رہائشی عمارت گر گئی تھی تاہم خوش قسمتی سے اس میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔
صوبے بھر میں ہونے والی تعمیرات میں معیار برقرار رکھنے اور ان کے ڈیزائن کی منظوری دینے کی ذمہ داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ہے، جس نے کراچی میں 380 سے زائد عمارتوں کو مخدوش قرار دے رکھا ہے۔
تاہم اس کے باوجود ایسی درجنوں عمارتوں میں لوگ اب بھی رہائش پذیر ہیں۔ جب کہ معیار پر نظر رکھنے کے لئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی انسپیکشن ٹیم کی جانب سے کئی سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں میں نقائص کی نشاندہی رپورٹس میں پہلے بھی کی جا چکی ہے۔ جب کہ ادارے میں کرپشن، بلڈر کے ساتھ ملی بھگت اور معیار پر سمجھوتے کی شکایات بھی عام ہیں۔ صوبائی محتسب کو گزشتہ سال ملنے والی سب سے زیادہ شکایات اسی بارے میں تھیں۔