بدھ کے روز صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف وڈیوز کے ’ری ٹوئیٹ‘ کرنے کے عمل پر برطانوی قانون سازوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے، جسے ابتدائی طور پر انتہائی دائیں بازو کے برطانوی راہنما نے پوسٹ کیا تھا، جنھیں نفرت انگیز تقریر کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔
متعدد قانون سازوں نے وزیر اعظم تھریسا مئی سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ سال صدر ٹرمپ کے دورہٴ برطانیہ کو منسوخ کیا جائے۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون ساز، ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ ’’وہ ہمارے اتحادی یا دوست نہیں ہیں‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا ہے کہ برطانیہ میں امریکی صدر کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم مئی کے ترجمان نے کہا ہے کہ وڈیو کو ’ری ٹوئیٹ‘ کرنے کا ٹرمپ کا عمل ’’غلط‘‘ تھا۔
بقول اُن کے ’’برطانیہ کے لوگ انتہائی دائیں بازو کے متعصبانہ بیانئے کو مسترد کرتے ہیں جو ہمارے ملک کے اقدار کے منافی ہے، ج، کی ملک غمازی کرتا ہے؛ یعنی شرافت، رواداری اور عزت۔ ایسا عمل کرکے صدر نے غلط کام کیا‘‘۔
عام طور پر بھی ٹرمپ کے حامی برطانوی سیاست داں اس بات پر نکتہ چینی کر رہے ہیں کہ ٹرمپ نے جیدا فرانسن کی تین ٹوئیٹس ’شیئر‘ کیں، جو تارکین وطن مخالف گروپ ’برٹین فرسٹ‘ کے معاون سربراہ ہیں، جو ’’روایتی برطانوی اقدار‘‘ کی جانب پلٹنے اور ’’اسلامائیزشن‘‘ کے خاتمے پر زور دیتا ہے۔
ٹرمپ کے ری ٹوئیٹ بدھ کی صبح سامنے آئے جب ایک غیرمصدقہ وڈیو نمودار ہوئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مسلمان تارکِ وطن بے ساکھی کی مدد سے چلنے والے ڈینمارک کے ایک لڑکے کو مار پیٹ رہا ہے۔ کچھ لمحات بعد، صدر نے دوسری وڈیو شیئر کی، جسے بھی فرانسن نے پوسٹ کیا تھا، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ’’مسلمان‘‘ بیبی مریم کے مجسمے کو مسمار کر رہا ہے۔
تیسری پوسٹ کے اوپر تحریر کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ: ’’اسلام پرست اجتماع ایک لڑکے کو چھت سے نیچے گرا رہا ہے، اور اسے مار مار کر ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔