برطانیہ میں کروناوائرس کی دریافت ہونے والی نئی قسم کرونا کی عالمی طور پر پھیلنے والی قسم سے 64 فی صد زیادہ مہلک ہے۔
اس بات کی تصدیق ایک تازہ ترین تحقیقی رپورٹ میں کی گئی ہے۔
کرونا وائرس کی یہ قسم ان متعدد اقسام میں سے ایک ہے جو عالمی وبا کے دوران اب تک سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سامنے آئی ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں چھپنے والی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کی تحقیق کے دوران 55 ہزار متاثرہ افراد کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا۔ یہ ڈیٹا ہسپتالوں کی بجائے کمیونٹی میں سے شدید متاثرہ افراد کی معلومات پر ترتیب دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ ڈیٹا ان افراد کا گزشتہ سال اکتوبر سے لیکر اس سال جنوری تک، کُل 68 دنوں تک اکٹھا کیا گیا۔
شرکا کو عمر، جنس اور ان کی نسل کے حوالے سے موازنے میں شامل کیا گیا۔
تحقیق نے ظاہر کیا کہ نئی قسم کا وائرس جس کا نام ون ون سیون ہے لوگوں کی 64 فی صد سے زیادہ موت کا موجب ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری اقسام کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد میں ہر ایک ہزار میں سے 2.5 کے مقابلے میں 4.1 فی صد کے تناسب سے اموات زیادہ ہو سکتی ہیں۔
برطانوی وائرس کے متعلق بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سیلولر مائکرو بائیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر سائمن کلارک کہتے ہیں کہ اس کے مہلک پن اور تیزی سے پھیلاؤ نے صحت عامہ کے نظام اور پالیسی سازوں کے لیے ایک نیا چلینج کھڑا کر دیا ہے۔
اس صورت حال میں وہ کہتے ہیں یہ بات اب سب پر عیاں ہے کہ لوگوں کا ویکسین لگوانا کتنا ضروری ہے۔
ایک اور ماہر مائیکل ہیڈ جو یونیورسٹی آف ساوتھیمپٹن میں گلوبل ہیلتھ کے سینئر محقق ہیں، کہتے ہیں کہ دنیا میں کووڈ 19 جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اس کی نئی اقسام کے بننے کا خطرہ رہے گا۔ ان کے بقول حتیٰ کہ کچھ اقسام ویکسینیشن پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اب تک کی سامنے آنے والی ویکسین بنانے والی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کی دوا برطانوی قسم سمیت زیادہ تر کرونا وائرس کی قسموں کے خلاف موثر ثابت ہوئی ہیں۔
لیکن جنوبی افریقہ میں پائی گئی وائرس کی قسم نے اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ کچھ قسمیں انسانی جسم کے مدافتی نظام سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھ سکتی ہیں۔