رسائی کے لنکس

برطانوی ہنگامہ آرائی: معاشرے کے ایک حصے کی محرومیاں منظرِ عام پر آگئی ہیں


برطانوی ہنگامہ آرائی: معاشرے کے ایک حصے کی محرومیاں منظرِ عام پر آگئی ہیں
برطانوی ہنگامہ آرائی: معاشرے کے ایک حصے کی محرومیاں منظرِ عام پر آگئی ہیں

اب جو فسادات لندن سے برمنگھم اورپھر مانچیسٹر تک پھیل گئے ہیں اُن کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اقلیتی فرقے کا ایک فرد ضرورت سے زیادہ سرگرم پولیس کا نشانہ بنا بلکہ اِن سے معاشرے کے ایک حصے کی محرومیاں منظرِ عام پر آگئی ہیں جو یہ محسوس کرتا ہے کہ معاشرے نےاُسے غربت کے قعرمُزّ لت میں دھکیل دیا ہے: ’فلاڈیلفیا انکوایرر‘

برطانیہ میں جاری فسادات پر ایک اداریے میں ’فلاڈیلفیا انکوایرر‘ اخبار کہتا ہے کہ اِن فسادات کا آغاز کریبی نژاد سیاہ فام شخص مارک ڈگن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے ہوا جس کا ایک جرائم پیشہ جتھے سے تعلق بتایا گیا ہے۔

پولیس نے ابتدا میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ گولی پہلے ڈگن نے چلائی تھی لیکن تحقیقات سے ثابت ہوگیا کہ اُس کے پاس جو پستول تھا اُس سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی تھی۔

بہرحال، اب جو فسادات لندن سے برمنگھم اور پھر مانچیسٹر تک پھیل گئے ہیں اُن کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اقلیتی فرقے کا ایک فرد ضرورت سے زیادہ سرگرم پولیس کا نشانہ بنا بلکہ اِن سے معاشرے کے ایک حصے کی محرومیاں منظرِ عام پر آگئی ہیں جو یہ محسوس کرتا ہے کہ معاشرے نےاُسے غربت کے قعرمُزّ لت میں دھکیل دیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ لوٹ مار کرنے والے ٹی وی کیمروں سے اپنا منہ چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔ بہت سوں کو چوری کرتے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کا حق ہے۔ اِس لیے کہ یہ اُن کا معاشرے پر قرض ہے جِس نے اُنھیں اقتصادی مواقع سے محروم رکھا اور اُن کی اُمنگوں کا گلا گھونٹا ہے۔

اخبار کو برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون سے اتفاق ہے کہ مجرموں کو سزا ملنی چاہیئے۔ لیکن، کہتا ہے کہ معاشرے میں جو اقتصادی اور تعلیمی محرومیاں ہیں اُن کا بھی تو تدارک ہونا چاہیئے۔

اخبار کہتا ہے کہ برطانیہ میں 16اور 24سال کی درمیانی عمر کے دس لاکھ افراد روزگار سے محروم ہیں۔

اخبار نے امریکی عہدے داروں کو مشورہ دیا ہے کہ برطانوی فسادات میں اُن کی دلچسپی محض سرسری نہیں ہونی چاہیئے۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی بہت سی غریب بستیوں میں حالات 1960ء کی طرح کے ہیں یا اُن سے بدتر ہیں۔

پورے امریکہ میں ایسی شہری بستیاں ہیں جہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی بیزاری اس سے زیادہ، یعنی فساد بھڑکانے کے تمام عناصر موجود ہیں۔

شام کے خلاف اضافی امریکی تعزیرات نافذ ہونے کے بعد ’بوسٹن گلوب‘ اخبار ایک اداریے میں کہتا ہے کہ یہ اُس وسیع تر بین الاقوامی کاوش کا حصہ ہے جِس کا مقصد صدر بشار الاسد کی جابر حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔ إِس کا ہدف شام کا سب سے بڑا بینک اور موبائل فون چلانے والی کمپنیاں ہیں۔ اِن تعزیرات سے قبل سعودی عرب، بحرین اور کویت نے اپنے اپنے سفیر دمشق سے واپس بلالیے تھے۔ اخبار کہتا ہے اگرچہ تاخیرہی سے لیکن عرب بادشاہوں نے صدر اسد کے اپنے ہی عوام پر شدید حملوں کی مذمت کی ہے۔ لیکن کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ گدی چھوڑ دیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ چاہیئے تو یہ تھا کہ امریکی سفیر رابرٹ فورڈ کو بھی دمشق سے واپس بلایا جاتا، لیکن سفیر کے دمشق میں مقیم رہنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ اُن کی وہاں موجودگی اورتشدد کے شکار علاقوں میں اُن کے دوروں کی وجہ سے وہ شام کے احتجاجی مظاہرین کے لیے ایک اہم سہارا ثابت ہوئے ہیں اور اگر صدر اسد کی تباہ کُن اور خطرناک حکومت کا خاتمہ ہوگیا تو امریکی سفیر کی موجودگی ملک کو جمہوری قیادت کے تحت لانے کے عبوری دور میں مدد گار ثابت ہوگی۔

شام کے خلاف اقتصادی تعزیرات کڑا کرنے کی حمایت کرتے ہوئے ’کینسس سٹی اسٹار‘ کہتا ہے کہ شام ایک عرصے سے مسئلہ بنا ہوا ہے خاص طور پر ایران کے ساتھ اُس کے قریبی تعلقات کی وجہ سے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اِس وقت امریکہ براہِ راست اُس بحران میں اپنے آپ کو الجھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ امریکی فوج پہلے ہی بہت زیادہ استعمال میں ہے اور ملک کو گھمبیر مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

اخبار کہتا کہ صدر بشار الاسد اپنے ظلم اور جبر کے جواز میں ڈھٹائی کے ساتھ یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ آزادی کے لیے لڑنے والے دراصل اسلامی دہشت گرد ہیں، لیکن خوش قسمتی سے ترکی پہلے ہی سے اِس جھوٹ کا پول کھولنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے اور شامی حکومت کی بربریت سے بھاگنے والے پناہ گزینوں کی کفالت کر رہا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردغان کا خیال ہے کہ شام دو ہفتوں کے اندر اندر اہم اور دوررس اصلاحات نافذ کرنے والا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اِس وقت شام کی طرف سے کیا ردِ عمل ہونا چاہیئے، یہ صدر اوباما کے لیے مشکل مسئلہ بنا رہے گا۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ امریکہ کو اپنا سفارتی دباؤ برقرار رکھنا چاہیئے اور اِس کے ساتھ ساتھ مالی تعزیرات لگا کر فی الحال اِسی پر اکتفا کرنی چاہیئے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG