رسائی کے لنکس

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں اور مقدمات پر احتجاج:مظاہرین کی گرفتاری اور رہائی


تصویر بشکریہ شبیر بلوچ
تصویر بشکریہ شبیر بلوچ

بلوچستان میں خواتین کی مبینہ جبری گمشدگی اور بعض پر مقدمات قائم کرنے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو کراچی پولیس نے گرفتاری کے کئی گھنٹے بعد رہا کردیا۔

تفصیلات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جبری گمشدگی کے معاملے پر پریس کلب سے وزیر اعلی ہاوس تک احتجاجی ریلی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ریلی شروع ہونے سے قبل ہی پولیس کی بڑی تعداد نے کلب کے باہر جمع ہونے والی بعض خواتین کو گرفتار کرلیا۔ بعد ازاں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سے تعلق رکھنے والے مزید ارکان اور انسانی حقوق کی کارکن ندا کرمانی بھی وہاں جمع ہوگئیں۔ جنہیں پولیس کی بھاری نفری نے پہنچ کر گرفتار کیا اور تھانہ سول لائنز منتقل کردیا۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے وائس فار مسنگ پرسنز کی سمی دین بلوچ نےکہا کہ صوبے میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد ان کی تنظیم نے فیصلہ کیا تھا کہ آج کا احتجاج موخر کردیا جائے لیکن اس کے باوجود دور دراز علاقوں سے بعض خواتین احتجاج کرنے پہنچ گئیں جنہیں پولیس نے گرفتار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد جب ہمارے کارکن وہاں پہنچے تو انہیں بھی گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں ڈال کر گرفتار کرلیا گیا۔ ان کا موقف ہے کہ پولیس نے پر امن شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔

تصویر: بشکریہ شبیر بلوچ
تصویر: بشکریہ شبیر بلوچ

ادھر محکمہ داخلہ سندھ نے تحریک انصاف کے 25 مئی کو احتجاج کے پیش نظر صوبے بھر میں دفعہ 144 کے تحت ہر قسم کے جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندی عائد کردی ہے جس کے تحت کسی بھی قسم کے احتجاج پر پولیس کو مظاہرین کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ نقص امن کے خطرات کے پیش نظر دفعہ 144 عائد کی گئی انہوں نےامید ظاہر کی کہ تمام شہری اس پر سختی سے عملدرآمد کریں گے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پریس کلب کے باہر سے گرفتار 17 افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں انہیں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا تاہم انہیں قانونی کارروائی کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔

ادھر انسانی حقوق کے کئی کارکنوں نے جبری گمشدگیوں پر احتجاج کرنے والوں پر سندھ پولیس کے کریک ڈاون کی سخت مذمت کی ہے اور اسے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جامعہ کراچی میں گزشتہ ماہ شاری بلوچ کے چینی شہریوں پر خود کش حملے کے بعد بلوچستان پولیس نے تربت سے ایک خاتون نور جان بلوچ کو دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں گرفتار کررکھا ہے جبکہ کراچی سے بھی خاتون سمیت کئی افراد کو سیکورٹی اداروں کی جانب سے پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا گیا جن میں سے بعض کو رہا کردیا گیا ہے۔ تاہم بعض کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں اب تک بغیر مقدمات کے ہی حراست میں رکھا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG