رسائی کے لنکس

پاکستانی خواتین سیاسی جماعتوں سے کیا چاہتی ہیں؟


25جولائی 2018 - پاکستان میں جولائی دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے موقعے پر راولپنڈی میں خواتین ووٹرز اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ۔ فوٹو اے پی
25جولائی 2018 - پاکستان میں جولائی دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے موقعے پر راولپنڈی میں خواتین ووٹرز اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ ۔ فوٹو اے پی

اکتوبر 2011 میں جب تحریکِ انصاف نے مینارِ پاکستان پہ اپنا پہلا جلسہ کیا تو بہت سی مڈل کلاس خواتین نے ملک گیر سیاست میں پہلی دفعہ اس تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اجتماعی کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسا غیر معمولی لمحہ تھا جس کے بعد خواتین کو جلسے اور دھرنے کی سیاست سے دور رکھنا مشکل ہو گیا۔

باوجود اس کے کہ اس وقت کی اپوزیشن کے حلقوں نے ان جلسوں میں شریک خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کر کے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، پچھلے چند برسوں میں سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت میں اضافہ دکھائی دیا ہے۔ یوں تو 1961 میں جب جنرل ایوب خان کے دور میں مسلم فیملی لا آرڈیننس پاس ہوا تو اس کے ترقی پسند ہونے میں اس وقت کی خواتین کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ البتہ ان میں سے تمام خواتین کسی نہ کسی بڑے افسر، جرنیل یا سیاستدان کی بیوی یا بیٹی تھیں۔

اپنی کتاب “دی اپسٹئیرز وائف” میں رافعہ زکریا لکھتی ہیں کہ مسلم فیملی آرڈیننس میں دوسری شادی کے حوالے سے سختی کے قوانین متعارف کرانے میں سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی بیگم حمیدہ بوگرا، بیگم رانا لیاقت علی خان اور جنرل ایوب کی صاحب زادی نسیم اورنگزیب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر 1980 کی دہائی میں جب جنرل ضیاء نے حدود آرڈیننس کے ذریعے پاکستانی خواتین کے لیے زندگی تنگ کر دی تو اس کے خلاف سڑک پر آ کر ویمن ایکشن فورم کی خواتین نے بھرپور احتجاج کیا مگر یہ خواتین بھی زیادہ تر ملک کی پرانی اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔

اس کے علاوہ 90 کی دہائی میں کراچی میں ایم کیو ایم کے جلسوں میں خواتین کا ایک واضح کردار رہا، لیکن اس رجحان کو ملک گیر سطح پر تحریک انصاف کے جلسوں نے ہی پھیلایا۔

اس وقت پاکستان میں جاری سیاسی ہلچل میں خواتین متحرک نظر آ رہی ہیں جسے دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک سیاست دان سے کیا توقعات رکھتی ہیں۔

ایکٹوسٹ نایاب گوہر جان کہتی ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’عورتوں کے مسائل کو اکثر ایک علیحدہ ایشو کے طور پر لیا ہی نہیں جاتا۔ کوئی ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جس نے اتنا وقت نکالا ہو کہ وہ عورتوں کو ایک علیحدہ اور فعال حلقہ انتخاب کے طور پر دیکھیں۔ میں ایسی جماعت کو ووٹ دینا چاہوں گی جو عورتوں کے مسائل کو ثانوی حیثیت نہ دے اور ان کی صحت، ان پر جنسی تشدد اور ان کے لیبر کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔‘‘

شاید خواتین ووٹرز کے مسائل کو کم سنجیدگی سے لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں اور مردوں کے ووٹنگ کے تناسب میں کافی فرق رہتا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں مردوں کے مقابلے میں ایک کروڑ ایک لاکھ کم خواتین نے اپنے ووٹ کے حق کو استعمال کیا۔ اسی قسم کے مسائل کو مد نظرٴ رکھتے ہوئے الیکشنز ایکٹ 2017 میں اس بات کی منظوری دی گئی تھی کہ کسی بھی حلقے میں خواتین کے دس فیصد سے کم ووٹ پڑنے کی صورت میں وہاں الیکشن دوبارہ کروایا جائے گا۔ لوئر دیر، نوشہرہ اور رحیم یار خان میں جب خواتین کا ووٹ کم تعداد میں پڑا تو وہاں الیکشن کا انعقاد دوبارہ کروایا گیا۔ مگر بدلتی حکومتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل میں دلچسپی میں کمی کا خدشہ رہتا ہے۔ بہت سے خوش آئند اقدامات سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

ان میں سے ایک مسئلہ خواتین کی موبیلیٹی یعنی نقل و حرکت کی آزادی اور خود مختاری کا ہے۔ پنجاب حکومت نے 2016 میں ویمن آن ویلز کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا جو حکومت کی تبدیلی کے بعد ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح تشدد سے متاثرہ خواتین کے لیے مراکز کی بنیاد ملتان میں ڈالی گئی مگر اندرونی تاخیر اور پھر تبدیلی حکومت کی وجہ سے یہ پراجیکٹ بھی روک دیا گیا۔

عورتوں کی خود مختاری کے حوالے سے مصنف نیلم احمد بشیر کی خواہش ہے کہ معاشرے میں اکیلی خواتین کے لیے رہنا آسان بنایا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہماری سوسائٹی کا ابھی تک سارا انحصار مرد پر ہی ہے۔ ایک سنگل عورت کے طور پر اگر میں ایک مکان کرائے پر لینا چاہوں تو نہیں ملے گا۔ سنگل عورتوں کے لیے کوئی ہاؤسنگ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کھاتے میں ان کا کبھی ذکر آیا ہے۔ حکومتیں زیادہ سے زیادہ بیواؤں کا نام لے لیتی ہیں لیکن طلاق یافتہ یا اکیلی عورتوں کا نام آج تک کسی اچھے پیرائے میں کسی نے نہیں لیا۔‘‘

نیلم کا شکوہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے آج تک کوئی ایسا سلسلہ نہیں بنایا کہ اکیلی عورتیں اپنے بل بوتے پر جی سکیں اور عزت سے رہ سکیں۔

جہاں تک سیاسی میدان میں عورتوں کی شمولیت کا تعلق ہے تو 2002 سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں عورتوں کے لیے 60 سے زیادہ ریزرو سیٹیں موجود ہیں۔ پاکستان کے پہلے آئین (1956) میں خواتین کے لیے 10 سیٹیں مختص کی گئی تھیں، 1962 میں اس تعداد کو کم کر کے 6 کر دیا گیا تھا، 1973 میں دوبارہ دس جب کہ 1985 میں انہیں دوگنا کر کے 20 کر دیا گیا اور اب یہ تعداد 60 پر ہے۔ مگر لیبر فورس میں عورتوں کی شمولیت کے لیے کوئی کوٹہ نہیں۔

جہاں تک تجارت اور بزنس کا تعلق ہے تو روایتی طور پر خواتین کی اس شعبے میں شمولیت مردوں کے مقابلے میں کافی کم رہی ہے حتٰی کہ کپڑوں کا کاروبار جس میں دنیا میں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں وہاں بھی پاکستان میں مردوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ صورت حال میں عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ویمن انٹرپرینیورز کا سیکشن 2014 کے بعد اپڈیٹ نہیں کیا گیا۔ البتہ کراچی جو پاکستان کی تجارت کا مرکز ہے، اس کا ساوٴتھ کراچی ویمن چیمبر کم از کم اپنی ویب سائٹ کے اعتبار سے متحرک دکھائی دیتا ہے۔

امریکہ میں انتخاب لڑنے والی جنوبی ایشیائی خواتین
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:57 0:00

کامیاب پاکستانی میک آپ برینڈ لشیئس کاسمیٹکس کی سی-ای-او مہربانو سیٹھی کی نظر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں کاروبار کرنے کے لیے سہولتیں بہتر ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’حکومتیں برآمدات پر زور دیتی ہیں تاکہ زر مبادلہ بن سکے لیکن ہم ان کاروباروں کو رد نہیں کر سکتے جو دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘

مگر مشہور ری ٹیل اسٹور پولی اینڈ ادرسٹوریز کی بانی آمنے شیخ فاروقی کی شکایت ہے کہ عورتوں کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے حکومتی امداد نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’’اس میں وہ کلچرل توقعات جمع کر دیجیے جو عورتوں کی وقت کی قلت کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں 10 فی صد فی گھنٹہ ایسے گھریلو کام کرتی ہیں جن کی کوئی باقاعدہ اجرت نہیں۔ اس لیے حیرت کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں عورتوں کی لیبر فورس میں شمولیت کی شرع 25 فیصد پر اٹکی ہوئی ہے جو کہ اس خطے میں سب سے کم ہے۔"

آمنے کا سوال ہے کہ ’’عورتوں کے لیے خصوصی گرانٹس اور مراعات کہاں ہیں؟ خاتون بزنس اونر کے لیے ٹیکس میں چھوٹ کہاں ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ یوں تو ہر کوئی خاتون آجروں کو ’’سپورٹ‘‘ کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن حکومت سے لے کر بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں تک سب عورتوں کو اتنا کیش، ٹریننگ یا مدد دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنا کام شروع کریں مگر پھر ان کو ایک ایسی دنیا میں گھسیٹ دیا جاتا ہے جہاں ساری بھاگ دوڑ انہیں خود کرنی ہے جس کے بعد انہیں کسی قسم کی مالی، قانونی یا اور قسم کی مدد حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کو جلد ہی ہار ماننا پڑ جاتی ہے۔ آمنے کہتی ہیں کہ، ’’میں ایسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہتی ہیں جو ان سب مسائل کا تدارک کر سکے۔‘‘

بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو خواتین کے لیے حالات اور بھی ناسازگار ہوتے جاتے ہیں۔ ویمن یونیورسٹی صوابی کی انتظامیہ نے حال ہی میں یونیورسٹی میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی اور خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا ایپس کے استعمال سے طالبات کی پڑھائی، اخلاقیات اور کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ طالبات اس اقدام پر سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچستان کی تربت یونیورسٹی کی سابق طالبہ اور کمیونٹی ڈولپر گراناز بلوچ کہتی ہیں کہ پانی کی قلت اور کلائمیٹ چینج جیسے بڑے معاملات کو بھی عورتوں کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر کمزور طبقات ناگہانی آفتوں سے مزید بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ،’’ میں ایسے امیدوار کو ووٹ دینا چاہتی ہوں جو پارکس، کیفے اور لائبریریوں کی اہمیت کو جانتی ہوں اور انہیں پتہ ہو کہ عورتوں کے ان سے مستفید ہونے سے معاشرے پر کیسا مثبت فرق پڑے گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG