رسائی کے لنکس

'لوگوں کے دکھ سنتی ہوں تو دل پر بوجھ بڑھ گیا ہے', بلقیس ایدھی، ایک عہد تمام ہوا  


بلقیس ایدھی، فائل فوٹو
بلقیس ایدھی، فائل فوٹو

" میں ٹی وی نہیں چلا سکتی ہوں۔ میں خبریں سنتی ہوں تو مجھے ٹینشن ہوجاتی ہے"۔ یہ کہنا تھا بلقیس ایدھی کا جو عبد الستار ایدھی کی وفات کے بعد ایدھی فاوندیشن کی چیئر پرسن بنی تھیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کے پوتے سعد ایدھی نے بلقیس ایدھی کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رمضان سے دو روز قبل انھیں دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں علاج کے بعد وہ گھر آگئیں لیکن پانچ روز قبل ان کی اچانک طبیعت بگڑی جس کے بعد انھیں دوبارہ اسپتال داخل ہونا پڑا جس کے بعد وہ آج وفات پا گئیں۔ بلقیس ایدھی عارضہ قلب، ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مرض میں میں کئی سال سے مبتلا تھیں۔ لیکن ان بیماریوں کے باوجود انسانیت کی خدمت میں ان کی جانب سے کبھی کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔

"میرے دل میں بیٹری لگی ہوئی ہے دل ٹھیک سے کام نہیں کرتا"۔ میرے سوال کرنے پر کہ آپ تو اتنے اچھے اچھے کام کرتی ہیں دل کو کیوں کمزور کرلیا؟ وہ زور سے ہنسیں اور کہنے لگیں کہ سارا سارا دن دکھی کہانیاں سنتی ہوں آنسو دیکھتی ہوں دل پر بوجھ بڑھ گیا اب خود سے کام نہیں کرتا کیا کروں۔

پہلا روزہ رکھا تو مجھے باداموں میں تولا گیا: بلقیس ایدھی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:46 0:00

میٹھادر میں قائم ایک کمرے کی ڈسپنسری سے سماجی خدمت کا آغاز کرنے والے اس جوڑے کی زندگی انتہائی سادگی میں گزری۔ سفید دوپٹے، شلوار اور سادہ سی قمیض زیب تن کیے بلقیس ایک پروقار شخصیت کی حامل تھیں۔ ان کی سادگی کی ایک مثال ان کا کمرہ بھی ہے جس میں ایک پرانے زمانے کا پلنگ، چھت پر لگا پنکھا، ایک کرسی اور میز موجود ہوتی تھی جس پر ان کی ضرورت کی کچھ اشیاء رکھی ہوتی تھیں۔

گلی میں موجود شور و غل ان کے کمرے میں صاف سنائی دیتا تھا۔ وہ اپنے کمرے سے اٹھتیں اور اپنے کمرے سے متصل خواتین اور بچوں کے لیے بنائے جانے والے اسپتال کا چکر لگاتی تھیں اور نرسوں سے بیٹھ کر بات چیت کرتیں۔ میٹھادر کے اس گھر کے دروازے ،دن ہوں یا رات، کبھی بند نہیں ہوئے۔

بلقیس ایدھی سے کسی کو بھی ملنا ہو وہ بالائی منزل پر آئے اور ان کی موجودگی کا معلوم کر کے ملاقات کر لے۔ انتہائی مصروف زندگی کے باوجود انھوں نے آج تک موبائل فون استعمال نہیں کیا۔ ان سے رابطہ کرنا ہو تو بذریعہ لینڈ لائن ہی کیا جاسکتا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد فون پر بات کے لیے موجود ہوتی تھیں۔

" بیٹا اپنا نام ضرور لکھوا دینا۔ وہ کیا ہے میں بھول جاتی ہوں۔ تم نے کب انٹرویو کرنے آنا ہے بس وقت اور دن کا، میری بچی کو بتادینا۔ یہ ڈائری میں لکھ دے گی"۔ بلقیس ایدھی کی باتیں ان ہی کی طرح سادہ اور معصوم تھیں۔ وہ بنا کسی بناوٹ کے بڑی بڑی باتیں کہہ جاتیں تھیں۔

کرونا کی وبا جب عروج پر تھی، جس کا شکار بلقیس کے بیٹے فیصل ایدھی ہوئے تو وائس آف امریکہ کو انٹر ویو دیتے وقت بلقیس نے کہا کہ ہم نے ورکرز کے لیے تمام حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔ لیکن وہ ایسے مریضوں کو اور مردوں کو اٹھا رہے ہیں جو کرونا کا شکار ہیں۔ جہاں رضاکار بیمار ہوئے، وہاں فیصل یہ کام کرنے لگا اس لیے اسے بھی کرونا ہوگیا۔

حالات کیسے بھی ہوں، کام کبھی نہیں رُکے گا: بلقیس ایدھی
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:49 0:00

" میں نے تو اتنے زیادہ ہاتھ دھونے شروع کردئیے ہیں کہ میرے ہاتھ گورے ہوگئے ہیں۔ یہ دیکھو کیسے صاف ہوگئے ہیں۔" انھوں نے معصومیت سے اپنے ہاتھ مجھے دکھاتے ہوئے کہا۔ ایک سوال کے جوا ب میں کہ ایدھی صاحب کے جانے کے بعد کیا فنڈز میں کمی آئی؟ تو ان کا جواب تھا کہ نہیں، یہ کام اب کبھی نہیں رکے گا۔ سب کو معلوم ہے کہ ہم کیا کام کر رہے ہیں۔ لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ ایدھی صاحب کو جانتے ہیں تو وہ ہماری مدد کرتے ہیں چاہے وہ ہمارے ملک کے لوگ ہوں یا بیرون ملک پاکستانی۔

بلقیس ایدھی اگست 1947 میں بانٹوا میں پیدا ہوئیں۔ وہ آٹھویں جماعت میں تھیں جب انھوں نے نرسنگ کی تربیت حاصل کی ۔ دوران نرسنگ ہی ان کی ملاقات عبدالستار ایدھی سے ہوئی جس کے بعد 1966 میں ان کی شادی ہوگئی ۔ عبدالستار ایدھی اور بلقیس کے چار بچے ہیں جس میں فیصل ایدھی اور کبریٰ ایدھی ان رضاکارانہ کاموں میں اپنے والدین کے شانہ بشانہ ہیں ۔ شادی کے بعد سے ہی بلقیس ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن میں اپنے شوہر کے ہمراہ کام کا آغاز کیا۔

سپر ہیرو 'ایدھی بابا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

ایک ایمبولینس اور ایک ایسی ڈسپنسری جو چھ سے ساتھ بستروں پر مشتمل تھی، اسے پاکستان کے سب سے بڑے ایمبولینس نیٹ ورک بنانے سے لیکر شیلٹر ہومز، اور رضاکاروں کی بڑی ٹیم بنانے تک کا یہ سفر آخری لمحے تک جاری رکھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کے متعلق فلاحی کاموں کے لیے بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فؤونڈیشن کی بنیاد رکھی۔

اس فاؤنڈیشن میں لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر بے گھر لڑکیوں کو پناہ دینے اور ان کی شادیاں کروانے تک کی ذمہ داری بلقیس خود سر انجام دیتی تھیں۔ بنا کسی جائز اعلانیہ رشتے کے پیدا ہونے والے بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے بلقیس ایدھی نے اپنے سینٹرز کے سامنے جھولے رکھے جن پر درج ہوتا تھا بچوں کو قتل نہ کریں۔ جھولے میں ڈال دیں۔ یوں کئی ایسے بچے جو خاندانوں کو قابل قبول نہیں تھے وہ بلقیس کے گود میں آئے اور پلے بڑھے۔ ایسے بچوں کو بے اولاد جوڑوں کو دینے کی ذمہ داری بھی بلقیس ایدھی کی نگرانی میں کیا جاتا تھا۔ اب تک تقریبا سولہ ہزار لاوارث بچوں کو بلقیس ایدھی نے محفوظ پناہ گاہ دی، جو اپنوں کو قبول نہ تھے۔

لاوارث اور یتیم بچیاں ایدھی سینٹر کی طرف سے قائم کیے گئے ایک گھر میں کھیلتے رہی ہیں (اے پی)
لاوارث اور یتیم بچیاں ایدھی سینٹر کی طرف سے قائم کیے گئے ایک گھر میں کھیلتے رہی ہیں (اے پی)

ایسی خواتین جنھیں ان کے گھر والے نکال دیتے انھیں پناہ دینے کا کام بھی بلقیس نے اپنے ذمہ لیا۔ ایسی خواتین جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں، ان کے لیے علیحدہ سے ایک مرکز بنایا گیا۔۔ کئی ایسی خواتین جو اپنے گھروں سے ناراض ہوکر آئیں انھیں مناکر ان کے خاندان سے صلح کروا کر بلقیس نے ان کے گھر بھجوایا۔ بلقیس کے حصے میں کوئی کم ذمہ داریاں نہیں تھیں۔

ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ دس برس کی عمر میں غلطی سے بھارتی سرحد پار کرنے والی سننے اور بولنے سے محروم گیتا کو پندرہ برس دیکھ بھال کے بعد بلقیس ایدھی نے واپس بھارت بھجوایا۔ جس پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو گیتا کا مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور اسے اس کے ملک واپس بھیجنے کی انتھک کوششوں کے اعتراف میں مدر ٹریسا 2015 ایوارڈ سے نوازا۔ بلقیس ایدھی کو حکومت پاکستان کی جانب سے ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا اس کے علاوہ وہ لینن پیس پرائز کی بھی حقدار قرار پائیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بلقیس ایدھی نے اسے نہ صرف ثابت کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ایک عورت اپنی پہچان اور شناخت کیسے بناسکتی ہے۔ آج بلقیس ایدھی کے یوں بچھڑجانے کے بعد انسانیت کا ایک عظیم باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

XS
SM
MD
LG