رسائی کے لنکس

عورت آزادی مارچ کے منتظمین کیخلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج


اسلام آباد میں آٹھ مارچ کو ہونے والے آزادی مارچ میں شریک خاتون لڑکیوں کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اسلام آباد میں آٹھ مارچ کو ہونے والے آزادی مارچ میں شریک خاتون لڑکیوں کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

پانچ وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں  مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والے عورت مارچ میں منتظمین نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو "توہین مذہب" کے زمرے میں آتے ہیں

پشاور میں ایک مقامی عدالت کےحکم پر اس سال آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہونے والے عورت مارچ کے منتظمین کیخلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پشاور کے شرقی پولیس تھانے کے عہدیداروں کے مطابق عورت آزادی مارچ کے منتظمین کیخلاف درج مقدمے میں توہین مذہب کے قانون کے تحت 295اے اور 295سی کی دفعات شامل ہیں۔

عدالتی حکم کیا ہے؟

پشاور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج سید شوکت علی شاہ نے 24 مارچ کو پانچ وکیلوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو منظور کرتے ہوئے شرقی پولیس تھانے کے عہدیداروں کو اسلام آباد میں آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت آزادی مارچ کے منتظمین کیخلاف مقدمہ درج کرنےکا حکم دیا تھا۔

پانچ وکیلوں کی جانب سے تعزیرات پاکستان کے دفعہ 22 - اے کے تحت دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والے عورت مارچ میں منتظمین نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مبینہ طور پر "توہین مذہب" کے زمرے میں آتے ہیں۔

توہین عدالت کی درخواست

چند روز قبل درخواست گزاروں نے دوبارہ پشاور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت سے شرقی پولیس تھانے کے ایس ایچ او کیخلاف 24 مارچ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی شکایت کرتے ہوئے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ۔

نوٹس ملنے پر پشاور کے شرقی تھانے کے ایس ایچ او عمران عالم نے جمعرات کے روز ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت میں حاضر ہوکر درج شدہ مقدمے یعنی ایف آئی آر کی کاپی جمع کرادی اور عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کردیا۔

ایف آئی آر کی کاپی ملنے کے بعد عدالت نے پولیس کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی ۔

درخواست گزاروں نے وکلاء گوہر سلیم اور اجمل مہمند کے توسط سے شرقی پولیس تھانے کے ایس ایچ او پر آزادی مارچ کے منتظمین کیخلاف قصداً اور عمداً لیت و لعل سے کام لینے کا الزام لگایا تھا۔

قبل ازیں ابرار حسین ، اسرار حسین اور تین دیگر وکلاء نے تعزیرات پاکستان کے دفعہ 22 –اے کے تحت پشاور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت میں عورت مارچ کے منتظمین کیخلاف مقدمہ درج کرنے کیلئے درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے 24 مارچ کو پشاور کے شرقی تھانے کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

درخواست گزاروں کا موقف

درخواست گزاروں میں شامل وکیل ابرار حسین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں مقدمہ درج کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب اس پر کارروائی شروع کی جائےگی اور گرفتاریاں بھی ہوں گی ۔

درج شدہ مقدمے میں کسی بھی ملزم کا نام شامل نہیں ھے مگر ابرار حسین کا کہنا ھے کہ ملزمان وہی منتظمین اور شرکاء ہیں جنہوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی اور بینرز پکڑے تھے ۔ اب یہ پولیس کا کام ہے کہ انکی نشاندہی کرے اور تحقیقات کرے ۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سر گرم منظور آفریدی نے اس معاملے پر مختصر تبصرے میں کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ھے اور اس پر بغیر کسی تحقیق کے بڑا اقدام نہیں ھونا چاہئے ۔

عورت آزادی مارچ کا ردعمل

عورت مارچ کے منتظمین نے پشاور کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کے فیصلے کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کر رکھی ہے ۔ اس پیٹیشن میں عورت آزادی مارچ کے عہدیداروں اور منتظمین نے درخواست گزار وکلاء کے لگائے گئے الزامات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی تو کس طرح اس کیخلاف مقدمہ پشاور میں درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس پیٹیشن پر پشاور ہائیکورٹ نے حکومت کو اپنا مؤقف داخل کرانے کے بارے میں نوٹس دے دیا ہے۔

مگر وکیل ابرار حسین کا موقف ہے کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست از خود ختم ہو گیا ہے ۔

یاد رہے کہ یہ معاملہ آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والے عورت آزادی مارچ کے بارے میں ایک صحافی کی جانب سے 10 مارچ کو سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ایک ویڈیو کے بعد شروع ہوا، جس کے بارے میں عورت مارچ کے منتظمین نے کہا تھا کہ ویڈیو جھوٹ پر مبنی اور مارچ کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

عورت مارچ کے منتظمین میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد اور کراچی میں عورت مارچ کے منتظمین وضاحت دے چکے ہیں۔

پاکستانی وزیرِِ اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے ویڈیو کے فرانزک معائنے اور ویڈیو جھوٹی ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

خیبر پختونخوا بار کونسل

خیبر پختونخوا بار کونسل نے بھی پچھلے 15 مارچ کو ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے اسلام آباد میں منعقد کی جانی والی تقریب کے منتظمین اور تعاون کرنے والے غیر سرکاری اداروں کیخلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG