رسائی کے لنکس

’پیسے نہیں ہیں؟ ڈیجیٹل والٹ میں بھیک ٹرانسفر کردو!‘


ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں ایک بھکاری نے بھیک کے لیے ای-والٹ کا سہارا بھی لے لیا ہے تاکہ کسی کے پاس یہ جواز ہی نہ رہے کہ ان کے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں۔
ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں ایک بھکاری نے بھیک کے لیے ای-والٹ کا سہارا بھی لے لیا ہے تاکہ کسی کے پاس یہ جواز ہی نہ رہے کہ ان کے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت اور گداگری میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان حالات میں سڑکو ں پر روایتی انداز میں بھیک مانگنے والے نظر آتے ہیں اور اب تو انہوں نے اپنے مانگنے کے طور طریقوں کو ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ بدلنا شروع کردیا ہے۔

بھارت کی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں ایک بھکاری نے بھیک مانگنے کے لیے ای-والٹ کا سہارا لے لیا ہے تاکہ کسی کے پاس یہ کھلے پیسے نہ ہونے کا جواز ہی نہ رہے۔

پٹنہ کے 40 سالہ راجو پرساد نے گوگل پے، فون پے اور پے ٹائم کے ذریعے لوگوں سے بھیک وصول کرنے کے لیے گلے میں کیو آر کوڈ آویزاں کرلیا ہے۔

’گلف نیوز‘ کے مطابق راجو پرساد نوجوانوں سے اپنے ای-والٹ میں روزانہ 50 سے 60 روپے تک جمع کر لیتے ہیں۔

راجو پرساد کا کہنا تھا کہ ان کے بھیک مانگنے پر زیادہ تر لوگ کہتے تھے کہ ان کے پاس کھلے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سےانہیں کم بھیک ملتی تھی اور ان کا گزر بسرمشکل ہوتا جا رہا تھا۔ کھلے نہ ہونے کا جواز پیش کرنے کے ساتھ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ اس ڈیجیٹل دور میں وہ اپنے پاس نقد رقم رکھتے ہی نہیں ہیں۔

ان کے مطابق لوگوں کے اس عذر پر انہوں نے بینک اکاؤنٹ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ایک ای-والٹ بھی بنالیا۔

راجو پرساد دن بھر مقامی ریلوے اسٹیشن میں بھیک مانگتے ہیں یا پھر بعض اوقات شہر کے مرکزی علاقے کا رخ کرتے ہیں جہاں شہریوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنا اکاؤنٹ ملک کے سرکاری بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں کھولا ہے۔ البتہ ان کے مطابق ان کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھولنا اس قدر آسان نہیں تھا۔

راجو پرساد نے بتایا کہ جب وہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے گئے تو ان سے کہا گیا کہ وہ سب سے پہلے اپنا آدھار کارڈ اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے جاری ہونے والا مستقل نمبر لائیں۔ ان کے پاس آدھار کارڈ تو تھا البتہ باقی دستاویزات جمع کرنے میں ان کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بینک اکاؤنٹ کھولا تو اس کے بعد ان کا ای-والٹ بنا۔

وہ اپنے گلے میں ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم کا کارڈ پہنے رہتے ہیں جس پر لگا ہوا کیو آر کوڈ لوگ اسکین کرتے ہیں اور ان کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کر دیتے ہیں۔

اسٹریٹ اسکولز: 'کرونا کی وجہ سے ساری محنت رائیگاں گئی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:57 0:00

ایک جانب بہت سے لوگ تو ڈیجیٹل ذرائع سے ان کو رقم کی ادائیگی کر دیتے ہیں البتہ دیہات میں بسنے والے اکثر شہریوں کے پاس یہ سہولت نہیں ہے تو وہ اب بھی راجو پرساد کے ہاتھ میں موجود کٹورے میں سکے ڈال دیتے ہیں۔

راجو پرساد خود بھی کہتے ہیں کہ زیادہ تر نوجوان، طلبہ یا شہر میں رہنے والے افراد انھیں خیرات ای-والٹ میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق گاؤں سے آنے والے افراد یا مسافر ان کے کٹورے میں ہی رقم دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت سے ایسے ڈیجیٹل انداز سے بھیک مانگنے والے کسی فرد کی کہانی پہلی بار سامنے آئی ہے البتہ چین میں بھی اسی طرح ایک شخص سامنے آیا تھا جو لوگوں سے ڈیجیٹل انداز سے بھیک جمع کرتا تھا۔

واضح رہے کہ بہار میں حکومت کوشش کر رہی ہے کہ بھیک مانگنے والوں کا ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے اور ان افراد کو نوکری اور رہائش فراہم کی جا سکے۔

XS
SM
MD
LG