بھارت میں اس سال بہار کے موسم میں زبردست جانی نقصان کی وجہ بننے والی کرونا وائرس کی لہر کا زور کم ہو چکا ہے لیکن اب لاکھوں لوگ میڈیکل بلوں کے بوجھ تلے دبے وہ قرض ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو انہوں نے بیماری کے علاج کے لئے لیا تھا۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے اکثر ملکوں کی طرح، اکثر بھارتی شہریوں کے پاس ہیلتھ انشورنس موجود نہیں اور وہ کرونا وائرس کے علاج کے خرچے کی وجہ سے قرضوں میں ڈوب چکے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، نئی دہلی کے رہنے والے انیل شرما دو مہینے تک ایک نجی اسپتال میں اپنے بیٹے کی عیادت کے لیے جاتے رہے۔ ان کا بیٹا ساریو شرما کرونا وائرس کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج تھا۔
انیل شرما کے مطابق ان کی تمام جمع پونجی ایمبولنس، طبی ٹیسٹوں، ادویات اور آئی سی یو کے بستر کا خرچہ پورا کرتے ہوئے ختم ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے بینکوں سے قرضے لیے۔ جب خرچہ مزید بڑھا تو انہوں نے دوستوں اور رشتے داروں سے ادھار پکڑا۔ جب وہ بھی ختم ہو گیا تو انہوں نے انجان لوگوں سے پیسے مانگے۔ انہوں نے انڈیا کی ’کراؤڈ فنڈنگ‘ ویب سائٹ کیٹو سے آن لائن لوگوں سے مدد کی اپیل کی۔ ان کے مطابق انہوں نے ابھی تک 50 ہزار امریکی ڈالر سے زائد رقم اپنے بیٹے کے علاج پر خرچ کی ہے۔
انہیں آن لائن رقم جمع کرنے سے 28 ہزار ڈالر کی رقم مل گئی مگر باقی کے 26 ہزار ڈالر کے قریب رقم لوگوں سے ادھار لینا پڑی۔ انہوں نے اتنا بڑا قرض اپنی زندگی میں کبھی نہیں لیا تھا۔
انہوں نے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور وہ اسے جینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے جذبات سے لبریز آواز میں بتایا کہ ’’میں ایک فخر کرنے والا باپ تھا، اب میں ایک بھکاری بن گیا ہوں۔‘‘
حالیہ وبا کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ قرضوں کے شدید دباؤ میں ہیں، وہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے معاشی بحالی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
وبا سے پہلے بھی بھارت کا طبی نظام کئی مشکلات کا شکار تھا۔
عام طور پر بھارتی شہری علاج معالجے کا 63 فیصد تک خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ بھارت میں جہاں کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے لاکھوں ملازمتیں ختم ہوئی ہیں، ایسے میں ہوش ربا علاج معالجے کے خرچوں نے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
بھارت میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جہاں بہت سی جگہوں پر ملازمتیں بحال ہوئی ہیں، وہیں معیشت دان اس عرصے کے دوران ایک کروڑ 20 لاکھ ملازمتوں کے ختم ہوجانے کے باعث پریشان ہیں۔ انیل شرما کی مارکیٹینگ کی ملازمت بھی انہی ملازمتوں میں سے ایک تھی۔
جب انیل شرما نے اپنے بیٹے کے دوستوں سے آن لائن چندہ جمع کرنے کی مہم کے لیے کہا تو انہیں اس وقت تک پچھلے 18 ماہ کی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ بھارت میں رواں برس اپریل سے جون کے دوران 4500 کے قریب آن لائن چندہ جمع کرنے کی مہمات میں سے 40 فیصد کرونا وائرس کی وجہ سے اسپتال کا خرچہ پورا کرنے کے لیے تھیں۔
اس سال مارچ میں شائع ہونے والی پیو ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تین کروڑ 20 لاکھ افراد درمیانے طبقے سے نکل کر نچلے طبقے میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جو دس سے بیس ڈالر روزانہ سے بھی کم کماتے ہیں۔
اے پی کے مطابق جو حالیہ اندازے لگائے گئے ہیں، ان کے تحت روزانہ دو ڈالر سے بھی کم کمانے والے افراد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد ساڑھے سات کروڑ سے بھی بڑھ گئی ہے۔