جو بائیڈن نے بدھ کو امریکہ کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں اپنے چار سالہ دور کا آغاز کر دیا ہے جب کہ کاملا ہیرس امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بن گئی ہیں۔
امریکہ کا صدر بننا بائیڈن کے طویل سیاسی کریئر کا نقطۂ عروج ہے، جب کہ کاملا ہیرس امریکہ کی نائب صدر بننے والی پہلی خاتوں، پہلی افریقی امریکی اور پہلی جنوبی ایشیائی شخصیت ہیں۔
صدر اور نائب صدر کی حلف برداری کی تقریب کرونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر امریکی قوم کے لیے آن لائن یعنی ورچوئل رہی۔
اس موقع پر 78 سالہ بائیڈن نے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں کہا کہ "امریکہ میں جمہوریت جیت گئی ہے اور امریکی عوام کی آواز سنی گئی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ کا دن ہے۔ یہ جمہوریت کا دن ہے۔ ایک تاریخ ساز اور امید کا دن، تجدید اور مسمم ارادے کا دن۔ جمہوریت قیمتی ہے اور حفاظت طلب بھی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ قومی یکجہتی امریکہ کے لیے مستقبل کی راہ ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ وہ صرف اُن امریکیوں کے صدر نہیں جنہوں نے اُنہیں ووٹ دیا بلکہ وہ تمام امریکیوں کے صدر ہیں۔
افتتاحی تقریب کے موقع پر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر ہائی الرٹ ہے، کیوں کہ دو ہفتے قبل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت پر ایک ایسے وقت میں حملہ کیا تھا، جب کانگریس کے اراکین جو بائیڈن کی تین نومبر 2020 کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کر رہے تھے۔
سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روایات کے برعکس نئے صدر بائیڈن کی افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔
ٹرمپ بدھ کی صبح اپنے دورِ اقتدار کے ختم ہونے سے کچھ گھنٹے قبل ہی وائٹ ہاؤس سے فلوریڈا کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔
بائیڈن کے حلف لینے سے قبل نائب صدر کاملا ہیرس نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
تقریب میں بائیڈن کی اہلیہ جل بائیڈن، نائب صدر کاملا ہیرس کے شوہر ڈگلس ایمہوف، سابق صدر براک اوباما، ان کی اہلیہ مشیل اوباما، سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی اہلیہ لورا بش، سابق صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ و سابق وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کی الیکشن میں کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی تھی۔ تاہم وہ عدالتوں میں اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکے۔
امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر کیپٹل کمپلیکس اور واشنگٹن مانومنٹ کے درمیان نیشنل مال عموماً لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لیکن اس بار کرونا وائرس کی وجہ سے لگ بھگ ایک ہزار مہمانوں کو ہی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔
تقریب کے دعوت نامے حاصل کرنے والوں میں بیشتر کانگریس کے ارکان اور دیگر نمایاں شخصیات شامل تھے۔
صدر بائیڈن کا سیاسی کریئر
ڈیموکریٹ جو بائیڈن کی صدرارت کا آغاز ان کے طویل سیاسی کریئر کا نقطۂ عروج ہے۔ وہ سابق صدر براک اوباما کے دور میں آٹھ سال تک امریکہ کے نائب صدر رہے۔
اس سے قبل انہوں نے کئی سال بطور سینیٹر امریکی کانگرس میں قانون ساز رہے۔
حالیہ دنوں میں کرونا بحران اور سیاسی کشمکش کےحالات کے تناظر میں بائیڈن نے امریکی عوام سے کہا تھا کہ ان کی ترجیحات میں امریکہ کی روح کو بحال کرنا، ملک کو اکٹھا کرنا اور ایک روشن مستقبل کا راستہ تشکیل دینا ہے۔
ڈیلا وئیر سے طویل عرصے تک سینیٹر کو تین نومبر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وائٹ ہاوس کی جانب راستے میں سخت رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
سابق صدر ٹرمپ نے کئی امریکی عدالتوں میں الیکشن میں فراڈ اور ووٹوں کی گنتی کے بارے میں مقدمات چلانے شروع کیے۔ اور جنوری کے پہلے ہفتے میں جب کانگرس ان کے انتخاب کی توثیق کر رہی تھی صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کانگرس کی عمارت پر چڑھائی کردی اور توڑ پھوڑ کے علاوہ ہنگامہ آرائی میں جانوں کا زیاں بھی ہوا۔
کرونا وائرس کےخلاف جنگ کے سلسلے میں بائیڈن اور کاملا ہیرس نے منگل کی شام دارالحکومت واشنگٹن میں وائرس سے ہلاک ہونے والے امریکیوں کے لیے ایک میموریل میں شرکت کی۔
منگل کے روز واشنگٹن روانہ ہونے سے پہلےجو بائیڈن نے اپنی آبائی ریاست ڈیلاوئیر میں ایک الوداعی تقریب سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اپنے آنجہانی بیٹے بو بائیڈن کو یاد کر کے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔
نیشنل گارڈ بیس پر اپنے بیٹے کی یاد میں منعقدہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لiے انتہائی ذاتی بات ہے کہ ان کا واشنگٹن کا سفر اس مقام سے شروع ہو رہا ہے۔ جو بائیڈن کا انتقال سن 2015 میں کینسر سے ہوا تھا۔
ڈیموکریٹک حکام کے مطابق جو بائیڈن ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کو پلٹنے کے منصوبے کا اعلان کریں گے۔
بائیڈن کے ٹرانزیشن آفیشلز کے مطابق صدر بائیڈن امریکہ میں رہنے والے 11 ملین "ان ڈاکومینٹڈ امیگرینٹس" کو آٹھ سال میں امریکی شہری بننے کا موقع فراہم کرنے اور مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے لیے پروگراموں کی بحالی اور ان کی توسیع کے بل کی تجویز دیں گے۔