امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن کے دورہ افغانستان وپاکستان کو مبصرین عالمی امور ان کے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کا سب سے اہم غیر ملکی دورہ قرار دے رہے ہیں ۔ واشنگٹن میں سابق امریکی سفارتکاروں اور خارجہ امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ نائب امریکی صدر کے دورہ پاکستان کا تعلق وہاں کی صورتحال سے ہے ۔
واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر سے منسلک سابق امریکی سفیر ولئیم بی مائیلم کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کی صورتحال کو بہت تشویش سے دیکھا جا رہا ہے اور ایسا بے وجہ نہیں ہے ۔ اگر چہ گورنر تاثیر کا قتل افسوسناک تھا مگر اس کے بعد جو ہوا ، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ریاست واقعی پائیدار ہے بھی یا نہیں ، اگر یہ چیزیں جاری رہیں تو اس سے مسئلے پیدا ہونگے کیونکہ امریکہ کو مستقبل میں پاکستان کے لئے اپنے عوام کی حمایت لازمی چاہئے ہوگی، اپنی ان پالیسیوں پر جس کے تحت پاکستانی معاشرے اورعوامی حکومت کو مضبوط کرنا مقصد ہے ۔ اگر وہاں عوامی حکومت قائم رکھنی ہے تو ۔۔۔۔۔
ولئیم بی مائیلم کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان ایک ایسے رشتے میں بندھے ہیں جس میں غلطی کی گنجائش کسی کے پاس نہیں ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کی مالی اور اخلاقی مدد کرتا رہے گا مگر پاکستان کے معاشی ڈھانچے کو اصلاح کی ضرورت ہے،کیونکہ اگر معیشت اور کمزور ہو تی ہے تو صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی ۔
ایک اور سابق امریکی سفارتکار ہاورڈ شیفر کہتے ہیں کہ جو بائیڈن پاکستان سے امریکہ کے سٹریٹیجک مقاصد پر بات کریں گے ۔۔
جو بائیڈن یہ بات بھی کریں گے کہ ہم یہاں سے آگے کہاں جائیں ۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اور افغانستان میں کیا ہمارے سٹریٹیجک مقاصد ہیں ۔ ۔ میرے خیال میں وہ اس موضوع پر بات بھی کرنا چاہیں گے کہ پاکستانی فوج قبائلی علاقوں اور شمالی وزیرستان کے بارے میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
واشنگٹن کے بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی خطیر امدادی رقوم اگر وہاں امریکہ مخالف جذبات میں کوئی کمی نہیں لا سکیں تو امریکہ کی خارجہ پالیسی اورٹیکس دہندگان کے سرمائے کو پاکستان کے حوالے کرنے سے پہلے کچھ مزید غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیرک لیبرٹ کو امریکی خارجہ پالیسی پر شدید تحفظات ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف دس فیصد پاکستانی آبادی امریکہ کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہے۔ تو کچھ نہ کچھ بہت غلط ہے ، کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کر رہا ہے ۔ کیوں پاکستان جیسا قدرتی اتحادی امریکہ کے بارے میں اتنے منفی انداز سے سوچ رہا ہے ۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کی کم سے کم سیاسی اور فوجی دخل اندازی ، اور اس یا اُس حکومت کی پشت پناہی سے گریز ایک بہتر حکمت عملی ہوگی۔
ڈیرک لیبرٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ معاشی اور صنعتی مدد ،پاکستانی کاروبار، صنعت اور ٹیکسٹائل کے اداروں کو امریکی منڈیوں تک رسائی فراہم کرنا اور ٹیرف میں کمی بھی پاکستانیوں کو دوست بنانے کی ایک بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔
تاہم واشنگٹن کے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی نائب صدر کو پاکستانی قیادت پر یہ بھی واضح کرنا ہے کہ مذہبی جذبات کو جنون بننے سے روکے بغیر کوئی نظام امن اور اعتدال کی ضمانت نہیں بن سکتا ۔