میانمار کی راہنما آنگ سان سوچی نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ملک کے شمالی علاقے رخائین کی اکثریتی مسلمان آبادی کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "میں نہیں سمجھتی کہ وہاں نسل کشی کی جاری ہے۔"
آنگ سان سوچی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ نوبیل انعام یافتہ ایسی شخصیت کے طور پر یاد رکھیں جائیں گی جنہوں نے اپنے ملک میں نسل کشی کے معاملے کو نظرانداز کیا۔
اس پر انہوں نے کہا کہ"جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اس معاملے کو نسل کشی کہنا ایک سخت اصطلاح ہے۔"
میانمار کی رخائین ریاست کے بحران سے نمٹنے کے بارے میں آنگ سان سوچی کی حکومت کے طریقہ کار پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
میانمار کی سرحد پر گزشتہ سال اکتوبر میں ایک باغی گروپ کی طرف سے ہونے والے حملے کے بعد فوج نے وہاں کارروائی شروع کی جس کی وجہ سے 75 ہزار روہنگیا مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بنگلادیش فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے قبل ازیں رواں سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ میانمار کی سیکورٹی فورسز نے باغیوں کے خلاف آپریشن کے دوران روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والوں کا مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر قتل اور اجتماعی جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا، جنہیں انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
میانمار کی فوج ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ وہ شورش کو روکنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
آنگ سان سوچی نے کہا کہ"ہم مذمت کی بجائے مفاہمت کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔ یہ مسلمان ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔"
جب ان سے انٹرویو میں پوچھا گیا کی کیا یہ تاثر غلط ہے کہ ان کی شخصیت میں بھارت کی تحریک آزادی کے ہیرو مہاتما گاندھی اور کلکتہ کی مدر ٹریسا کا ایک مرکب ہے۔
بلکہ اس کی بجائے ان کی شخصیت سابق برطانوی راہنما مارگریٹ تھیچر کی طرح ہے تو انہوں نے کہا کہ "ایسا نہیں ہے، میں ایک سیاستدان ہوں میں مارگریٹ تھیچر کی طرح نہیں اور نا ہی میں مدر ٹریسا (کی طرح) ہوں۔"