رسائی کے لنکس

بنوں کی سی ٹی ڈی بلڈنگ میں آپریشن مکمل، 25 دہشت گرد اور تین سیکیورٹی اہلکار ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی عمارت پر عسکریت پسندوں کے قبضے کے خلاف آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔ سرکاری طور پر منگل کی شب کارروائی ختم ہونے کا اعلان سامنے آیا تھا البتہ پوراآپریشن بدھ کو مکمل ہو سکا۔

منگل کی شب افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ آپریشن کے دوران 25 دہشت گرد ہلاک جب کہ صوبیدار میجر سمیت تین سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کارروائی کے دوران صوبیدار میجر خورشید اکرم بھی بہادری سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ انہوں نے دیگر دو سپاہیوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی۔

انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں فوج کے 10 اہلکار زخمی ہوئے جن میں تین افسران بھی شامل ہیں۔

البتہ بدھ کے آپریشن کے حوالے سے آئی ایس پی آر یا حکومت کی جانب سے مزید تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔

عمارت کے اطراف بدھ کی صبح جدید خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کا سلسلہ چند منٹ تک جاری رہنے کے بعد تھم گیا تھا۔

مقامی سول حکام اور پولیس افسران کا کہنا ہے کہ آپریشن مکمل ہو چکا ہے البتہ سیکیورٹی فورسز سرچ آپریشن میں مصروف ہیں۔

منگل کو آپریشن ختم ہونے کا اعلان مگر بدھ کو پھر فائرنگ

قبل ازیں بنوں میں محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی عمارت میں موجود تمام عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کے بعد بھی بدھ کی صبح عمارت سے فائرنگ کی آوازیں آنے کا سلسلہ جاری رہا۔

مقامی ذرائع سے وائس آف امریکہ کو ملنے والی معلومات کے مطابق بدھ کی صبح ایک بار پھر سی ٹی ڈی کی عمارت سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔

سرکاری طور پر اس فائرنگ کے حوالے سے کوئی بھی معلومات جاری نہیں کی گئیں تھی لیکن فائرنگ کی آوازوں کے بعد علاقے میں ایک بار پھر خوف و ہراس پھیل گیا ۔

بنوں سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بدھ کو وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد سے گفتگو میں بتایا کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں متعدد عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔

انہوں نے وعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بم پروف گاڑی میں موجود ٹی ٹی پی کے کمانڈر ضرار کو زندہ پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سی ٹی ڈی کی عمارت پر قبضے کے بعد عسکریت پسندوں نے کئی ویڈیوز جاری کی تھیں۔ ان میں کمانڈر ضرار نےبھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔

منگل کو جاری ہونے والے اس پیغام میں ٹی ٹی پی کمانڈر ضرار نے سیکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے اور بعد میں عمارت پر قبضہ کرنے کا بتایاتھا ۔

بنوں کے صحافی کا کہنا تھا کہ منگل کو فوجی آپریشن شروع ہوتے ہی ٹی ٹی پی کمانڈر ضرار نے ایک ساتھی سمیت تھانے کی حدود میں موجود بم پروف گاڑی پر قبضہ کرکے وہاں سے مزاحمت شروع کر دی تھی۔

سی ٹی ڈی کے کمپاؤنڈ سے دہشت گردوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے فورسز نے منگل کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے آپریشن شروع کیا تھا۔

آپریشن کے باعث کمپاؤنڈ کے اطراف بند کی گئی سڑکوں پر ٹریفک کی آمد و رفت بدھ کو بھی بدستور معطل ہے جب کہ ضلع بھر کے سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل بھی معطل ہے۔

'سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ پر اندر سے حملہ ہوا'

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف کے مطابق بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت پر بیرونی حملہ نہیں ہوا تھا بلکہ اندر موجود دہشت گردوں نے اہلکاروں کو یرغمال بنا کر عمارت پر قبضہ کیا تھا۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ سی ٹی ڈی کی عمارت میں آپریشن کے دوران 25 دہشت گرد ہلاک ہوئے جب کہ تین گرفتار اور سات نے ہتھیار ڈالے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا دعویٰ تھا کہ سی ٹی ڈی کی عمارت پر قبضہ کرنے والے دہشت گرد غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے، جس کے بعد سیکیورٹی اداروں نے 20 دسمبر کو ایک بھر پور آپریشن شروع کیا۔ آپریشن کے دوران دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد عمارت کے ہر کمرے کے کلیئرنس آپریشن کا آغاز ہوا۔

ان کے بقول سی ٹی ڈی کے دفتر میں 35 دہشت گرد زیرِ تفتیش تھے ۔ 18 دسمبر کو ان میں سے ایک نے سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار کو قابو کر لیا تھا جب کہ اس سے ہتھیار بھی چین لیا تھا۔

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد نے عمارت میں موجود دیگر زیرِ تفتیش ساتھیوں کو آزاد کرا لیا تھا جنہوں نے بعدازاں عمارت میں موجود مال خانے سے ضبط شدہ ہتھیار بھی قبضے میں لے لیے۔

انہوں نے بتایا کہ ہتھیار ہاتھ میں آنے کے بعد دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی، جس کی زد میں آ کر سی ٹی ڈی کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہوا جب کہ ایک اہلکار زخمی ہوا تھا جو بعد میں دورانِ علاج چل بسا۔

ایک فوجی افسر یر غمال

میجر جنرل احمد شریف نے فوج کے ایک افسر کے بھی دہشت گردوں کی حراست میں ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایک جونیئر کمیشنڈ افسر (جے سی او) تفتیش کے لیے سی ٹی ڈی کی عمارت میں موجود تھا۔ جے سی او صوبیدار میجر خورشید اکرم کو بھی دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔

سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کے آغاز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب سی ٹی ڈی کی عمارت سے فائرنگ کی آوازیں آئیں تو دیگر سیکیورٹی ادارے فوری طور پر وہاں پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ محاصرے کے آغاز پر دہشت گردوں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں دو عسکریت پسند نشانہ بنے جب کہ تین دہشت گرد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، البتہ سیکیورٹی اداروں نے ان تینوں کو گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی میں دو سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ بعد ازاں سیکیورٹی اداروں نے پورا علاقہ گھیرے میں لے لیا تھا اور سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ سے دہشت گردوں کی فرار کی کوشش ناکام بنا دی۔

عسکریت پسندوں کے مطالبات

حتمی آپریشن کے آغاز سے قبل کی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آخری 48 گھنٹوں میں کوشش کی گئی کہ دہشت گرد غیر مشروط طور پرہتھیار ڈال دیں لیکن دہشت گرد افغانستان جانا چاہتے تھے اور وہاں جانے کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے افغانستان جانے کے مطالبے کو رد کیا گیا۔

’آپریشن میں10 اہلکار زخمی ہوئے‘

فوجی ترجمان کے مطابق آپریشن کے دوران فوج کے 10 اہلکار زخمی ہوئے جن میں تین افسران بھی شامل ہیں۔

زخمیوں کی سامنے آنے والی فہرست کے مطابق فوج کے زخمی ہونے والے اہلکاروں میں ایک میجر، ایک کپتان، ایک نائب صوبیدار اور سات سپاہی شامل ہیں۔

گرفتار افراد عام قیدی ہیں؛ ٹی ٹی پی کا دعویٰ

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ سی ٹی ڈی کی عمارت پر بیرونی حملہ نہیں کیا گیا۔

ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ کمپاؤنڈ میں یرغمال بنائے گئے آٹھ اہلکاروں اور چار سیکیورٹی افسران سمیت فوج کے 30 ایس ایس جی کمانڈوز ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج نے کچھ افراد گرفتار کیا ہے جب کہ کچھ کے ہتھیار ڈالنے کی خبر دی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں وہ عام قیدی تھے۔

ٹی ٹی پی ترجمان کے مطابق اگر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے ہوتے تو وہ دو دن تک طویل مذاکرات کے دوران ہتھیار ڈال چکے ہوتے۔

دو گھنٹے میں آپریشن مکمل

خیال رہے کہ اس سے قبل منگل کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے بنوں واقعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ سی ٹی ڈی کے کمپاؤنڈ میں 33 دہشت گرد تھے جن میں سے ایک نے بیت الخلا جاتے ہوئے سیکیورٹی اہل کار کے سر پر اینٹ ماری اور اس کو نشانہ بنانے کے بعد باقی اہل کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ تاہم دوپہر ساڑھے 12 بجے آپریشن شروع کیا اور ڈھائی بجے اسے مکمل کر لیا گیا۔

عسکریت پسندوں نے اتوار کو سی ٹی ڈی کے دفتر میں اہلکاروں کو یرغمال بنایا تھا، بعد ازاں یہ عسکریت پسند ویڈیو پیغامات کے ذریعے حکومت سے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مقامی مذہبی شخصیات کے ذریعے عسکریت پسندوں سے مذاکرات ہوئے تھے لیکن وہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے تھے۔

صوبائی حکومت نے بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کرے گی۔

’ریاست جھکے گی نہیں‘

دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ریاست کسی بھی دہشت گرد گروہ یا تنظیم کے سامنے نہیں جھکے گی۔

پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ کے مطابق دہشت گردوں کی بیرونی سہولت کاری اور پناہ گاہوں کا سدباب کیا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ خیبر پختونخوا کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کی از سرِ نو تشکیل کی جائے گی۔

بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت پر عسکریت پسندوں کے قبصے پر امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکہ بنوں میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے آگاہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلام آباد کو مدد کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG