رسائی کے لنکس

پرویز الہٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پنجاب میں جوڑ توڑ اور رابطے


پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں جمعے کو تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد سیاسی ماحول گرم ہو گیا ہے۔

اسی اثنا میں پیر کی شب پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلٰی اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے جب کہ گورنر پنجاب نے بھی چوہدری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا ہے۔

پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرے گی؟ وزیرِ اعلٰی پنجاب کی جانب سے عمران خان کے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف بیانات کی کھل کر مخالفت کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا چوہدری پرویز الہٰی ایک بار پھر پی ڈی ایم کے قریب ہو رہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پنجاب میں اقتدار کے ایوانوں میں گونج رہے ہیں جب کہ عوامی حلقوں میں بھی یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔

قوانین کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد وزیرِ اعلٰی اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا جس کے بعد عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ تاریخ پر پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایوان میں 186 اراکین کی حمایت حاصل کریں۔ اسی طرح اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھی وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ایوان میں 186 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔

اس اثنا میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کا معاملہ بھی تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔ گورنر پنجاب نے بدھ کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے۔ تاہم اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے سے ہی جاری ہے۔ لہذٰا نیا اجلاس بلانے کی گورنر کی ہدایت بلاجواز ہے۔

'تحریکِ عدم اعتماد اچانک جمع نہیں کرائی گئی'

مبصرین سمجھتے ہیں کہ حکمراں اتحاد پاکستان بھر میں عام انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔ انتخابات سے قبل اُنہیں بھرپور تیاری کرنا ہو گی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اچانک جمع نہیں کرائی گئی۔

وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر کئی روز سے غورو فکر جاری تھا اور کوشش یہ ہے کہ اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جائے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے سوچ بچار کے بعد یہ سیاسی چال چلی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پرویز الہٰی کا دوبارہ حکمراں اتحاد (پی ڈی ایم) سے معاملہ طے پا جائے، کیوں کہ اگر پرویز الہٰی اعتماد کے ووٹ میں 186 اراکین کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو پھر پنجاب حکومت ختم ہو جائے گی۔

سینئر صحافی مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ پرویز الہٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کی نوبت عمران خان کے فیصلے کے بعد ہی آئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی کا نیوز چینل 'اے آر وائی' کو دیا گیا انٹرویو معنی خیز ہے جس کے بعد پی ٹی آئی کے اندر بھی بعض حلقے اُن کے خلاف ہوئے ہیں۔ تاہم عمران خان جو کہیں گے وہی ہو گا۔

چوہدری شجاعت حسین بھی سرگرم

دریں اثنا مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین بھی پرویز الہٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد متحرک ہو گئے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق چوہدری شجاعت حسین، سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ رابطے میں ہیں اور تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں آئندہ کی حکمتِ عملی پر غور کر رہے ہیں۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں پنجاب کی وزارتِ اعلٰی پیپلزپارٹی کو دی جا سکتی ہے۔

کیا اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اُنہیں اِس بارے تو کچھ نہیں معلوم کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے دورہ راولپنڈی کے دوران کس سے ملے؟ لیکن مسلم لیگ (ق) نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلق کو کبھی بھی نہیں چھپایا۔

خیال رہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان سے قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ پرویز الہٰی نے راولپنڈی میں اہم شخصیت سےملاقات کی ہے۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ برملا کہہ رہی ہے کہ وہ غیر جانب دار ہے، لیکن لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ (ق) اور چوہدری پرویز الٰہی گائیڈ لائن اُنہی سے لیتے ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے جو حالیہ انٹرویو جنرل باجوہ کے بارے میں دیا وہ عمران خان کے لیے ایک سخت پیغام تھا۔

مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں جو بات کی ہے۔ اُس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی سرگرمی ہو رہی ہے۔

'اگر ٹکڑوں میں الیکشن ہوئے تو سارا سال انتخابات ہی ہوتے رہیں گے'

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں ٹکڑوں میں انتخابات کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر آئندہ برس ،سارا سال ہی الیکشن ہوتے رہیں گے۔

اُن کے بقول بہتر یہی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوں جس کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ فریقین میں اعتماد کا بحران ہے، لہذٰا پسِ پردہ مذاکرات میں بھی اُونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔

'آئندہ انتخابات مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکل ہوں گے'

مظہر عباس کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکل ہوں گے۔ ان میں کامیابی کے لیے اُنہیں ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔ الیکشن چاہے مارچ میں ہوں یا اکتوبر میں مسلم لیگ (ن) کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات نہیں ہوتے تو عمران خان کو خدشہ ہے کہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن

خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے جس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس سب سے زیادہ 178 نشستیں ہیں۔ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستیں ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے پنجاب اسمبلی میں 168 ارکان ہیں جب کہ ان کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی سات نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو چار آزاد ارکان اور راہِ حق پارٹی کے ایک رُکن کی حمایت حاصل ہے۔

'مسلم لیگ (ق) عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے'

پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے حکمراں اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی مختلف دعوے سامنے آ رہے ہیں۔

ترجمان وزیرِ اعلٰی پنجاب ڈاکٹر زین علی بھٹی کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی اور مونس الہٰی واضح کر چکے ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر زین کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) تحریکِ عدم اعتماد کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔

دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اگر چوہدری پرویز الہٰی اعتماد کاووٹ نہ لے سکے تو پھر ہم وزیرِ اعلٰی ہاؤس کو تالہ لگا دیں گے۔

لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایک طرف پرویز الہٰی کہتے ہیں کہ فوری طور پر اسمبلیاں توڑ دُوں گا، لیکن ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ اسمبلیاں نہیں ٹوٹنی چاہئیں۔

منگل کی شام عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) اور تحریکِ انصاف مل کر تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ کرے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کراتے ہیں یا وزیرِ اعلٰی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ووٹنگ کراتے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام بنانے کے فوری بعد اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوا دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG