|
بنگلہ دیش کے طلبہ کے ایک گروپ نے ایک ٹیلی وژن اسٹیشن کے مالک کے دفتر پر دھاوا بولا۔ طلبہ نے پانچ صحافیوں کو نکالنے کے لیے دباؤ ڈالنے کو اپنے خلاف پراپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے طلبہ نے اگست میں ملک گیر مظاہرے کیے تھے جس کے نتیجے میں وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہو گئی اور محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی جو إصلاحات کے بعد عام انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
شیخ حسینہ کے طویل عہد کو میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بدترین دور کہا جاتا ہے۔
امتیازی سلوک کے خلاف کرنے والے طلبہ کے ایک گروپ کے 15 سے 20 اسٹوڈنٹس نے، اپنے کنوینر حسنات عبداللہ کی قیادت میں 17 دسمبر کو سوموئی ٹیلی وژن کی فنانسر کمپنی سٹی گروپ کے دفتر پر دھاوا بولا۔
حسنات نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوموئی ٹیلی وژن پراپیگنڈے کی غرض سے میرے بیانات کو توڑمروڑ کر پیش کر رہا ہے اور ایک زوال پذیر سیاسی پارٹی کے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔
حسنات کا کہنا تھا کہ ہم پورے خلوص سے آزادی صحافت کے حامی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پریس بھی غیر جانب دار رہے۔
انہوں نے ان رپورٹس کو مسترد کر دیا کہ طلبہ نے ٹی وی انتظامیہ سے کچھ کارکنوں کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
سوموئی ٹیلی وژن کی فنڈنگ کرنے والے کاروباری گروپ کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے تبصرے کی متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اس واقعے نے صحافیوں میں پائے جانے والے خوف و ہراس میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس ٹیلی وژن کے لیے سینئر ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے والے ایک صحافی عمر فاروق نے بتایا کہ ان کا نام بھی پانچ صحافیوں کی اس فہرست میں شامل ہے جنہیں بلاوجہ نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام نے ہم میں سے چند صحافیوں سے کہا ہے کہ ٹیلی وژن کی بہتری کے لیے استعفیٰ دے دیں۔
عمر فاروق نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمیں برطرفی کی وجوہات بتائیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ میڈیا کی آزادی چاہتے ہیں۔
یونس کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے کہا کہ اگر کسی جانب سے کوئی کارروائی ہوتی ہےتو اس کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔
پریس کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بہت سے ایسے صحافیوں کو، جو ناقدین کے بقول شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں ان کی حمایت کیا کرتے تھے، ماضی کے اپنے کاموں کے حوالے سے پولیس کی تحقیقات کا سامنا ہے جو بظاہر ایک انتقامی کارروائی ہے۔
اس وقت بنگلہ دیش میں کم از کم چار صحافی جیلوں میں ہیں جب کہ ملک بھر میں سینکڑوں صحافیوں کو قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
حسینہ اور ان کی حکومت پر متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بند کرنے، اور صحافیوں کو قید کرنے سمیت آزاد میڈیا اداروں پر، جن کی تعداد مٹھی بھر تھی، غیر ضروری دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا جاتا تھا۔
حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد، سوموئی ٹی وی سمیت کئی ٹی وی چینلز عوامی لیگ سے ان کی مبینہ وفاداری کی وجہ سے حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
نومبر میں، مظاہرین نے بنگالی زبان کے سب سے بڑے اخبار، پرتھم الو کے دفاتر کا محاصرہ کیا اور اسے بند کرنے کی دھمکی دی۔ ایسی ہی دھمکی ڈیلی سٹار کو بھی دی گئی تھی۔
بنگلہ دیش میں پریس کی آزادی طویل عرصے سے خطرے میں ہے۔
رپورٹرز ودآ ؤٹ بارڈرز کے مطابق، آزادی صحافت میں بنگلہ دیش 180 ممالک کی فہرست میں 165 ویں نمبر پر ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)
فورم