|
شام کے نئے حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں مسلح گروپوں نے اپنے آپ کو تحلیل کر کے وزارت دفاع میں ضم ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ فیصلہ مسلح باغی گروپوں کے رہنماؤں اور عارضی حکومت کے رہنما احمد الشرع کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا ہے۔
ان باغی گروپوں نے عرصہ دراز سے برسر اقتدار رہنما بشار الاسد کی حکومت کے خلاف حملہ آور ہو کر ان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔
باغی جنگجوؤں نے 8 دسمبر کو بجلی کی رفتار سے پیش قدمی کے بعد اسد حکومت کے خاتمے کے بعد دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔
یوں یہ لڑائی ملک کی 13 سالہ خانہ جنگی میں کئی سالوں کے تعطل کے بعد چند ہی دنوں میں ختم ہو اگئی کیونکہ باغیوں نے شام کے کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس بڑی تبدیلی کے فوراً بعد خطے کی حکومتوں نے شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالات اور خطے میں اضافی عدم استحکام کے خدشات کے پیش نظر اپنے ایلچی دمشق بھیجے ہیں۔
خطے میں پائے جانے والے خدشات میں ایک تشویش یہ ہے کہ داعش گروپ ممکنہ طور پر ملک میں اپنے لیے جگہ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ داعش نے 2014 میں مشرقی شام اور مغربی عراق کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد ازاں، گروپ نے اس علاقے کا بڑا حصہ لڑائیوں میں کھو دیا تھا۔
امریکی فوج نے پیر کو کہا کہ اس نے مشرقی شام کے صوبہ دیر الزور میں ایک فضائی حملہ کیا جس میں داعش کے دو جنگجو مارے گئے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے ایک بیان کے مطابق عسکریت پسند "ہتھیاروں سے بھرے ٹرک کو منتقل کر رہے تھے، جسے حملے کے دوران تباہ کر دیا گیا۔"
دریں اثنا، شام کی خانہ جنگی کے بعد یورپ ہجرت کرنے والے بہت سے شامی اسد حکومت کے خاتمے کو ایک حیران کن اور ناقابل یقین پیش رفت کے طور پر خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
تاہم، بہت سے مہاجرین اپنے آبائی ملک کی صورت حال کو غیر مستحکم دیکھتے ہیں اور وہ واپسی کے بارے میں کئی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، بعض یورپی ملکوں میں سیاست دان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اب جب کہ شامی اپنے ملک میں تبدیلی کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں انہیں اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔
ایسے تناظر میں جب کہ یورپ میں امیگریشن مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں، بہت سے ملکوں نے شامیوں کی پناہ کی درخواستوں کو اس بنیاد پر معطل کر دیا ہے کہ ان کے ملک میں اب وہ وجوہات وجود ہی نہیں رکھتیں جن کی بنیادوں پر وہ پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیںَ
خطے کی بڑی معیشت جرمنی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یاد رہے کہ جرمنی نے 16-2015 اور 2016 کے دوران شامی پناہ گزینوں کی یورپ آمد کے عروج کے وقت تقریباً دس لاکھ شامیوں کو قبول کیا تھا۔
ملک کے چانسلر اولاف شولز نے قوم کے دھارے میں شامل پناہ گزین کا خیرمقدم کیا ہے۔
تاہم حزب اختلاف کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے ایک قانون ساز نے شامیوں کو گھر جانے کے لیے تقریباً 1,040 ڈالر ادا کرنے کی تجویز پیش کی ہے -
ہمسایہ ملک آسٹریا نے پہلے ہی یہ موقف اپنایا ہوا ہے۔
فرانس میں بھی ایسا ہی سخت رویہ نظر آتا ہے حالانکہ ملک نے صرف 30,000 شامی پناہ گزینوں کو قبول کیا تھا۔
اس ماہ ہونے والے ایک عوامی جائزے کے مطابق 70 فیصد فرانسیسیوں نے پناہ کی نئی درخواستوں کو معطل کرنے کی حمایت کی ہے۔
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی نیشنل ریلی کے صدر جارڈن بارڈیلا نے حال ہی میں ایک ہجوم کو بتایا، "چونکہ ہم نے سنا ہے کہ شامی پناہ گزین ڈکٹیٹر اسد کے خاتمے پر خوشی منا رہے ہیں، آئیے انہیں گھر بھیجنے پر کام کریں۔"
انہوں نے مزید کہا، "آئیے ہم امید کریں کہ یورپ ان کے جانے کے بعد (پناہ گزینوں پر اپنا) دروازہ بند کر دے گا۔"
لیکن یورپ میں شام کے تارکین وطن اور انسانی حقوق کے حامیوں کے لیے یہ سوچ خطرے کی گھنٹی ہے۔
وائس آف امریکہ کی لیزا برائنٹ نے رپورٹ دی ہے کہ پورے خطے میں بہت سے پناہ گزینوں نے انٹرویوز میں واپس جانے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یورپی یونین کی ہجرت اور پناہ گزینوں کی وکیل اولیویا سنڈبرگ ڈیز نے کہا، "شام کی صورت حال انتہائی غیر مستحکم، انتہائی غیر متوقع ہے۔"
انہوں نے زور دیا، "سب سے اہم بات شامی پناہ گزینوں اور ان لوگوں کی حفاظت ہونی چاہیے جو تحفظ کے خواہاں ہیں- اس (معاملے کو) سیاسی مفادات پر ترجیح دی جانی چاہیے۔"
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں قائم سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطی کے پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ول ٹوڈمین نے ایک مضمون میں خبردار کیا، "لاکھوں شامیوں کی واپسی میں تیزی سے شام پر ایک انتہائی نازک لمحے میں مزید دباؤ پڑے گا اور یہ ایک کامیاب منتقلی کے امکانات کو کمزور کر دے گا۔"
فرانس کے شہر اورلیانز کے قریب رہائش پذیر شامی حقوق کے وکیل احد نیلی کو بھی پناہ گزینوں کے فوری واپسی کے معاملے پر تشویش ہے۔
شام کے تباہ حال انفراسٹرکچر اور ملک میں مذہبی اور نسلی کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئ انہوں نے کہا،"آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ 'حکومت تباہ ہو گئی ہے، آپ اب شام میں رہ سکتے ہیں۔"
احد نیلی کا خاندان فرانس میں تقریباً ایک دہائی سے مقیم ہے اور ان کی 15 سالہ بیٹی عربی نہیں بولتی۔
انہوں نے کہا کہ اگر پناہ گزینوں کی آبائی ملک میں استحکام نہیں ہے تو لوگوں کو میزبان ممالک چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
(یہ خبر لیزا برائنٹ کی تحریر ہے جس میں اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے معلومات شامل کی گئی ہیں)
فورم