صوبہٴ بلوچستان میں ایک صوفی کے مزار پر، جہاں عقیدت مند بڑی تعداد میں جمع تھے، ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ حملہ صوبے کے ایک دور افتادہ علاقے، جھل مگسی میں ہوا۔
اس خودکش حملے کی زد میں آکر کم ازکم 20 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق شیعہ برادری سے تھا جو حملے کے وقت وہاں ’دھمال‘ ڈال رہے تھے۔
جھل مگسی کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بڑی تعداد میں زخمی لائے جا رہے ہیں، جن میں کئی ایک کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، انوار الحق کاکٹر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خودکش بمبار مزار کے احاطے میں داخل ہو کر دھماکہ کرنا چاہتا تھا، لیکن ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کاروں نے اس کا راستہ روکا جس کے بعد اس نے وہیں دھماکہ کر دیا۔
حکومت نے ایمرجینسی نافذ کر دی ہے اور 50 کے لگ بھگ شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کوئٹہ کے اسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔
ضلعی پولیس سربراہ محمد اقبال نے میڈیا کو بتایا کہ واقعہ کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور عہدے داروں نے خودکش حملہ آور کے جسم کے ٹکڑے اکھٹے کر لیے ہیں، تاکہ اس کی شناخت کی جا سکے۔
حملے کی زد میں آنے والا مزار صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 400 کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔
فوری طور پر کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
تاہم، اس سے قبل داعش نے بلوچستان میں ایک صوفی کے مزار پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔