رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک بار پھر مالی بحران کا شکار ہو گیا ہے اور صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر وفاق نے صوبے کی مالی مدد نہیں کی تو آئندہ مالی سال میں صوبائی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔
بلوچستان کی سابق مخلوط صوبائی حکومت نے عام انتخابات سے قبل رواں سال مئی میں مالی سال 18-2017 کے لیے 352 ارب روپے کا سالانہ میزانیہ پیش کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی مالیت کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے کا خزانہ خالی ہے اور مالی بحران روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔
صوبائی کابینہ کے وزرا میر عارف محمد حسنی اور میر ظہور بُلیدی نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ بلوچستان کے پاس رواں سال کے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے کوئی رقم ہی نہیں بچی ہے۔
صوبائی وزرا کا کہنا تھا کہ صوبے کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 88 ارب روپے کا ہے جس میں صوبے کی آمدن سے 77 ارب روپے جب کہ باقی کے 11 ارب روپے وفاقی حکومت کی مدد سے بیرونِ ملک سے ملنے تھے۔
لیکن ان کے بقول صوبے کے پاس ترقیاتی منصوبوں پرخرچ کرنے کے لیے پچھلے بجٹ میں سے صرف ڈیڑھ ارب روپے رہ گئے تھے جو پہلے ہی خرچ ہوچکے ہیں اور اب صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے بلوچستان حکومت کے پاس کوئی رقم نہیں بچی۔
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ماہرین کے بقول پاکستان میں زیرِ زمین مختلف معدنیات کے لگ بھگ 50 ذخائر موجود ہیں جن میں سے 40 بلوچستان میں ہیں۔
ان ذخائر میں سے گیس، تیل، سونا، تانبا، زنک، کرومائیٹ، کوئلہ، سنگِ مرمر اور دیگر کو بروئے کار لایا جارہا ہے لیکن صوبائی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ اور چین کی جانب سے سیندک اور ریکوڈیک کے ذخائر سے نکالے جانے والے سونے سے صوبے کو بمشکل دو فی صد آمدن ہوتی ہے۔
تجزیہ کار بدعنوانی کو صوبے کی پسماندگی اور معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تجویز ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنا 'ہاؤس اِن آرڈر' کرکے معاملات بہتر بنانے چاہئیں۔
سابق سیکریٹری خزانہ اور اقتصادی امور کے ماہر محبوب علی خان کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل کے ذخائر کو مالی قوت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو اپنے تئیں اقدامات کرنے چاہئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے بارے میں بلوچستان میں ایک مکمل سیکریٹریٹ ہونا چاہیے جسے صوبائی حکومت راہداری سے متعلق منصوبوں کی نگرانی اور معلومات کے لیے استعمال کرے۔
محبوب علی خان کے بقول بلوچستان بے شمار قدرتی وسائل کا مالک ہے لیکن صوبائی حکومت نے اس پر کام نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے حالات پیدا کر نے چاہئیں تاکہ نجی شعبہ سرمایہ کاری کے لیے آگے آئے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو صوبے میں ہی روزگار کے مواقع میسر آئیں۔
سیاسی تجزیہ کار امان اللہ شادیزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو صوبے کی سابق حکومتوں کے ادوار میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات بھی کرنی چاہئیں۔
شادیزئی کہتے ہیں کہ ماضی میں ایک اعلیٰ افسر کی رہائش گاہ سے 90 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے اور اس محکمے کے وزیر اور اعلٰی افسر دونوں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن آدھی سے بھی کم رقم لے کر دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔
ان کے بقول اس طرح کے فیصلوں سے بدعنوانی میں ملوث لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ سابق حکومت کے دور میں قومی احتساب بیورو نے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 85 کروڑ سے زائد مالیت کی پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی برآمد کی تھی۔
بعد ازاں حکام نے سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مشیرِ خزانہ خالد لانگو کی کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں اربوں روپے مالیت کی جائیداد کی نشان دہی پر جون 2016ء میں انہیں حراست میں لیا تھا لیکن مشتاق رئیسانی اور خالد لانگو دونوں کو عدالت سے ضمانت ملنے پر رواں سال جولائی میں رہا کر دیا گیا تھا۔