جنوب مشرقی یورپ میں جہاں پورا خطہ سخت سردی کی لپیٹ میں ہے ، امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ہزاروں تارکین وطن کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔
بلقان کی ریاستوں میں اس ہفتے درجہ حرارت منفی بیس درجے تک گر چکا ہے اور بہت سے پھنسے ہوئے پناہ کے متلاشی کھلے آسمان تلے خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں راتیں بسر کر رہے ہیں۔
اب جب کہ جنوب مشرقی یورپ سخت سردی کی زد میں ہے، ہزاروں تارکین وطن خالی گوداموں یا ایسی ویران عمارتوں میں سو رہے ہیں جو برفباری سے تو بچاؤ فراہم کر سکتی ہیں لیکن ان کے اندر بھی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی نیچے ہے ۔ پناہ کے ایک متلاشی یوسف نوید کہتے ہیں کہ یہاں اتنی سخت سردی ہے کہ وہ ان کے لیے سونا مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اس قسم کی جگہ کبھی اپنے خوابوں میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ بہت زیادہ بری صورت حال ہے اور موسم بہت زیادہ سرد ہے ۔
سربیا کی حکومت نے تمام تارکین وطن پرزور دیا ہے کہ سرکاری کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ لیکن امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں جگہ نہیں رہی ۔ وہ سب بھرے ہوئے ہیں ۔
ایک فلاحی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ بہت سے تارکین وطن پہلے ہی سردی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ سربیا میں ادارےکے سر براہ سٹیفین موئیسنگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ بہت سی بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں سانس لینے کے نظام کی انفکشن ، خارش اور جسم میں جووں کی وبا پھیل چکی ہے ۔ اس کے علاوہ پچھلے چند روز میں سرحد پار، خاص طور پر بلغاریہ سے آنے والے نئے تارکین وطن میں سے متعدد کے اعضا سخت سردی سے متاثر ہو چکے تھے۔
ہنگری کی جانب سے بلقان کی مشترکہ سرحد کے ساتھ ساتھ سرحدی باڑوں کی تعمیر کے ذریعے بلقان کا راستہ بند کرنے کی کوشش کے باوجود روزانہ مسلسل لگ بھگ ایک سو تارکین وطن سربیا پہنچ رہے ہیں ۔ بہت سے تارکین وطن یونان سے آ رہے ہیں جہاں ہزاروں تارکین وطن بدستور پھنسے ہوئے ہیں۔
کیمپوں کی صورت حال پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنے والے عہدے داروں نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک پروگرام کے تحت سینکڑوں تارکین وطن کو ہوٹلوں کے خالی کمروں میں منتقل کر دیا ہے ۔ بدھ کے روز نیوی کا ایک بحری جہاز سخت سردی کے دوران پانچ سو تارکین وطن کو لے کر لسبا جزیرے پر لنگر انداز ہوا۔
امدادی ادارے یورپی یونین میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کی مدد میں ناکامی کی بنا پر تنقید کر چکے ہیں ۔ بدھ کے روز مالٹا میں کمیشن کے صدرجین کلاؤڈجنکرنے رکن ملکوں پر از سر نو منتقلی سے متعلق یورپی یونین کے منصوبے پر عمل درآمد پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کا مسئلہ یونان سے اٹلی اور مالٹا تک پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ یورپی مسئلہ ہے اور ہمیں یورپ کی جانب سے یک جہتی کے رد عمل کی ضرورت ہے۔
اسی دوران جرمنی نے خبر دی ہے کہ وہاں 2016 میں پناہ کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد میں اس سے گذشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں کمی ہوئی ہے ۔ 2016میں پناہ کے لئے آنے والوں کی تعداددو لاکھ اسی ہزار تھی جب کہ اس سے پچھلے سال یہ تعداد آٹھ لاکھ نوے ہزار تھی۔