یورپی یونین کے رہنما پناہ گزینوں کی آمد کو روکنے کے سلسلے میں پیر کو برسلز میں ایک اجلاس میں ترک رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔
یہ اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب ہزاروں پناہ گزین یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر محصور ہیں۔
یورپی یونین کے سفارت کاروں نے پیر کو برسلز میں ہونے والے ہنگامی اجلاس سے قبل کہا تھا کہ یورپی یونین کا ایک مجوزہ معاہدہ بلقان ریاستوں سے گزرنے والے پناہ گزینوں کے راستے کو بند کرنے کا اعلان کرے گا۔
مقدونیہ کے شمال میں واقع ممالک نے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا ہے جس کے بعد شام، افغانستان اور عراق سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو جرمنی اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کی طرف سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
2015 کے اوائل سے اب تک سمندری راستے سے لگ بھگ دس لاکھ پناہ گزینوں کی یونان آمد کے بعد یورپی رہنما ترکی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ پناہ گزینوں کو اس خطرناک راستے سے یورپ آنے سے روکے اور جو لوگ یورپی یونین میں پناہ کے اہل نہیں انہیں اپنے ملک واپس آنے دے۔
ترکی میں صرف شام سے آنے والے لگ بھگ 27 لاکھ مہاجرین موجود ہیں اور یورپی اقوام اور شام کے دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح ترکی بھی ان کے لیے خدمات کی فراہمی میں مشکلات سے دوچار ہے۔
یورپی یونین نے پناہ گزینوں کو یورپ جانے سے روکنے کے لیے ترک حکام کو کئی اقدامات کی پیشکش کی ہے۔ ترکی کو شامی پناہ گزینوں کے لیے 3.3 ارب ڈالر دیے جائیں گے۔ یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کے عمل کو تیز کیا جا رہا ہے جبکہ ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین کے ویزے کے حصول کی شرائط کو نرم کیا جا رہا ہے۔
نیٹو نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ یونان اور ترکی کی مدد کے لیے بحیرہ ایجیئین بحری جہاز تعینات کر رہا ہے تاکہ ’’انسانی سمگلنگ اور جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹا جا سکے جو اس بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔‘‘
برطانیہ بھی نیٹو کی فورس میں شمولیت کے لیے متعدد جہاز بھیج رہا ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کا کہنا ہے کہ اس سال سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں 400 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔