آسٹریا نے اعلان کیا ہے کہ وہ سلووینیا کے ساتھ جنوبی سرحدی گزرگاہ پر پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود کر رہا ہے اور اب روزانہ صرف 80 افراد کی درخواستیں ہی موصول کی جائیں گی۔
وزیر داخلہ جوہانا مکل لیٹنر نے بتایا کہ جمعہ سے 3200 ایسے افراد جو "پڑوسی ملک میں بین الاقوامی تحفظ کی تلاش کے لیے موجود ہیں"، آسٹریلیا آنے کی اجازت حاصل کر سکیں گے۔
ان کے بقول کہ جب روزانہ کی مقرر کردہ تعداد مکمل ہو جائے گی تو سرحدی گزرگاہ کو تارکین وطن کے لیے عارضی طور پر بند کر دیا جائے گا لیکن جو لوگ پہلے سے ملک میں موجود ہیں وہ لوگ اس کے باوجود درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔
جرمنی تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد کو پناہ دینے والا ایک بڑا ملک جہاں آنے والوں کی اکثریت شام کی جنگ سے فرار ہو کر پناہ کی تلاش میں یہاں پہنچی۔ اس ملک تک جانے کے لیے آسٹریا تارکین وطن کے لیے گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔
جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل نے یورپی یونین کے 28 ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ یونین کے ترکی کے ساتھ معاہدے کی مثال کو سامنے رکھیں جو کہ ان کے بقول "مسئلے کا ایک اچھا حل" پیش کرتا ہے۔
یونان پہنچ کر یہاں سے دیگر زیادہ خوشحال یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے یورپی یونین کے ممالک نے ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کے مدد کے لیے تین ارب تیس کروڑ ڈالر کی معاونت کا اعلان کیا تھا۔
جرمن اخبار میں بدھ کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر کا کہنا تھا کہ یورپ نے تارکین وطن کے بحران سے متعلق پیش رفت کی ہے اور ان کے بقول آنگیلا مرخیل کا تنقید کے باوجود اپنی "دور اندیش" پالیسی پر ڈٹے رہنا قابل تعریف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ آنگیلا اور مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی درست تھی۔
یورپی یونین کے رہنما جمعرات اور جمعہ کو برسلز میں ملاقات کر رہے ہیں جس میں تارکین وطن کی پالیسی میں پائے جانے والے اختلافات پر مذاکرات ہوں گے۔