شمال مشرقی یورپ میں ہزاروں تارکین وطن اور پناہ گزین خوراک اور پانی کی کم دستیابی جیسی صورتحال سے دوچار ہیں اور ان ملکوں کی طرف سے اپنی سرحدیں بند کیے جانے کے بعد مغربی یورپ کی طرف ان کا سفر بھی مسدود ہو چکا ہے۔
ہفتہ کو ہنگری میں حکام سینکڑوں تارکین وطن کو آسٹریا کی طرف جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے رہے کیونکہ کروئیشیا نے اپنا وطن چھوڑ کر آنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی سرحد بند کر دی ہے۔
تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ مشرق وسطیٰ اور افریقی ملکوں سے جنگوں اور مسلح تنازعات کے باعث راہ فرار اختیار کرنے والے ان ہزاروں لوگوں کے ساتھ آسٹریا کیسے معاملہ حل کر پائے گا۔
کروئیشیا نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھونے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ اسے اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے سابقہ پڑے گا۔
کروئیشیا کے وزیراعظم زورن میلانووچ نے دارالحکومت زغرب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ان لوگوں کو مزید اپنے ہاں رکھ یا ان کا اندراج نہیں کر سکتا۔
"انھیں خوراک ملے گی، پانی اور طبی امداد بھی اور پھر یہ آگے جا سکتے ہیں۔ یورپی یونین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کروئیشیا تارکین وطن کا گڑھ نہیں بنے گا۔ ہمارا دل ہے لیکن ہمارا دماغ بھی ہے۔"
کروئیشیا میں بدھ کی صبح تک 17000 تارکین وطن اورپناہ گزین پہنچے تھے جو کہ یورپی یونین کے اس نسبتاً کم خوشحال ملک کے لیے ایک مشکل صورتحال ہے۔
رواں سال اب تک بحیرہ روم کے راستے سے یورپ پہنچنے والوں کی تعداد چار لاکھ 73 ہزار 887 بتائی گئی ہے۔ ان میں سے اکثر جزیرہ نما بلقان کے ذریعے یورپی ملکوں خصوصاً جرمنی کا رخ کر رہے ہیں جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال آٹھ لاکھ تارکین وطن کو جگہہ دے گا۔