آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی نے بارودی سرنگ کا پتہ لگانے کی نئی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (سی ایس آئی آر او) کا کہنا ہے کہ ہاتھ میں پکڑ کر استعمال کیا جانے والا نیا آلہ روایتی میٹل ڈیٹیکٹرز سے زیادہ تیز اور قابل اعتماد ہے۔
آسٹریلیا کے تیار کردہ آلے میں مقناطیسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو بارودی سرنگوں میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کو شناخت کر سکتی ہے۔
موجودہ میٹل ڈٹیکٹر کے برعکس یہ آلہ بارود کے علاوہ دیگر چیزوں یا دیگر غیر متعلقہ دھاتی اشیاء کی نشاندہی نہیں کرے گا ، جس سے بارودی سرنگیں تلاش کرنے والی ٹیموں کے وقت اور محنت کی بچت ہوگی۔
اس سے ملتی جلتی ریڈیائی لہروں پر کام کرنے والی ٹیکنالوجی کان کنی کی صنعت میں بھی استعمال ہو رہی ہے جس سے کان میں عام چٹان اور وہاں چھپی ہوئی قیمتی معدنیات کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔
سائنسی ادارے سی ایس آئی آر او کے سائنس دان ڈیوڈ ملجاک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ باردوی سرنگ تلاش کرنے کی ٹیکنالوجی طبی شعبے میں استعمال کیے جانے والے ایک معروف آلے ایم آر آئی سے ملتی جلتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طبی شعبے میں استعمال ہونے والے ایم آر آئی میں طاقت ور مقاطیسی لہریں استعمال کی جاتی ہیں جب بارودی سرنگیں تلاش کرنے والے آلے میں طاقت ور مقنا طیسی لہروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس میں استعمال کی جانے والی ریڈیائی لہریں زمین کے نیچے یا سطح پر موجود بارودی مواد کو شناخت کر سکتی ہیں۔
آسٹریلیا کی سائنس ایجنسی 2024 میں بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے والے اس آلے کو جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 60 سے زائد ممالک میں 10 کروڑ سے زیادہ بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، جن کی وجہ سے ہر سال تقریباً 6500 ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
(وی او اے نیوز)