خیبر پختوںخوا کے شہر پشاور میں 'بس ریپڈ ٹرانزٹ' (بی آر ٹی) منصوبے کی آڈٹ رپورٹ صوبائی اسمبلی میں جمع کرا دی گئی ہے جس میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر دو ارب 77 کروڑ 47 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔
اس بس منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں اور بدعنوانی کے الزامات پر پشاور ہائی کورٹ کے حال ہی میں وفات پانے والے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے بھی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔
یہ معاملہ حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا امان اللہ حقانی نے عدالت میں اُٹھایا تھا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق اس بڑے منصوبے کی لاگت میں ڈیزائن کی تبدیلی کے باعث 17 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے کی ابتدائی لاگت 49 ارب روپے سے بڑھ کر 66 ارب روپے ہو گئی جب کہ اس منصوبے کے لیے مختص شدہ رقوم سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سمیت کئی اعلیٰ افسران نے ایک کروڑ 77 لاکھ کی اضافی تنخواہیں وصول کیں۔
رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی منصوبے کے لیے مختص رقم سے 17 لاکھ مردان اور ایبٹ آباد میں پِنک بسوں پر خرچ کیے گئے جب کہ پرانی تعمیرات گرانے سے ملبے کی فروخت کی مد میں ٹھیکے داروں سے پانچ کروڑ 48 لاکھ روپے بھی وصول نہیں کیے گئے۔
اسمبلی میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سول ورک مکمل ہونے سے قبل ہی عوام کو دکھانے کے لیے 50 بسیں پہلے ہی منگوا لی گئیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں بی آر ٹی بسوں کو چلانے کے لیے سالانہ ایک ارب 60 کروڑ سے لے کر ڈھائی ارب روپے کی سبسڈی درکار ہو گی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق منصوبے کے پی سی-ون کے دوران 143 افراد کو مختلف عہدوں پر پُر کشش معاوضوں پر تعینات کیا گیا۔
آڈٹ رپورٹ صوبائی اسمبلی میں جمع ہونے کے باوجود تاحال اس پر بحث شروع نہیں ہوئی۔
خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل وزیر شوکت علی یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ ابتدائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ پر تفصیلی بحث صوبائی اسمبلی میں ہی ہو گی اور حکومت وہاں اپنا باضابطہ مؤقف پیش کرے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے کے ذریعے پشاور کے عوام کو بین الاقوامی معیار کی سفری سہولیات مل رہی ہیں۔
پشاور بس منصوبے کا افتتاح سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجود وفاقی وزیر برائے دفاع پرویز خٹک نے اکتوبر 2017 میں کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ یہ منصوبہ 49 ارب روپے کی لاگت سے چھ ماہ میں مکمل ہو گا۔
لیکن چھ ماہ کے بجائے یہ اضافی لاگت سے اگست 2020 میں مکمل ہوا۔
منصوبے کی تاخیر سے تکمیل کے بعد اس کا آغاز ہوا تو ایک ماہ کے دوران بسوں میں آگ لگنے کے چار واقعات کے علاوہ چھ حادثات ہو چکے ہیں۔ جب کہ کئی اسٹیشنز کی تعمیر ابھی جاری ہے۔