پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں مکمل ہونے والا بس منصوبہ افتتاح کے بعد سے ہی حادثات سے دوچار ہے جس کے سبب اپوزیشن جماعتیں اور عوامی حلقے حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے 13 اگست کو کیا تھا تاہم افتتاح کے بعد اس ٹرانزٹ سے آئے روز مختلف حادثات اور واقعات کی خبریں آرہی ہیں۔
بدھ کی رات بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ایک بس میں آگ لگ گئی۔ جہاں ایک جانب بس کو نقصان پہنچا وہیں منصوبے کے روزمرہ معاملات بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی نگرانی پنجاب کی ایک نجی کمپنی 'ٹرانس' کو سونپی گئی ہے۔
کمپنی کے ترجمان عالمگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آگ بس سے منسلک بیٹریوں میں لگی تھی جس پر 10 منٹ کے اندر قابو پالیا گیا۔ آگ سے بس کو معمولی نقصان پہنچا اور کوئی بڑا مالی یا جانی نقصان نہیں ہوا۔
چند روز قبل شہر کی مصروف ترین شاہراہ جی ٹی روڈ پر گلبہار کے قریب اس منصوبے کے تحت چلنے والی ایک بس حادثے کا شکار ہوئی جس سے نہ صرف بی آر ٹی کے تمام راستوں پر بسوں کی قطاریں لگ گئیں بلکہ حادثے کے باعث مصروف ترین روڈ پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا تھا۔
کمپنی ترجمان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی بس منصوبہ نہ صرف نیا بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک وسیع نظام ہے اس لیے بقول ان کے ابتدائی دنوں میں چھوٹے موٹے حادثات اور واقعات ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام مشکلات، حادثات اور واقعات پر قابو پالیا جائے گا۔
عالمگیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی آر ٹی بس منصوبے کو نہ صرف پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کے لوگوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔
ادھر وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے گزشتہ رات کے واقعے سے متعلق ایک بیان میں کہا ہے کہ آگ پر فوری طور پر قابو پالیا گیا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ بس کو جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پشاور کے سیاسی سماجی اور کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل جرگے میں شامل خالد ایوب کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ اس پر آئے روز حادثات ہو رہے ہیں، پشاور کے عوامی سماجی اور کاروباری حلقوں نے ان نقصانات کی پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق پشاور کا بس منصوبہ 67 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا ہے اور اس کے تمام اخراجات صوبائی حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضہ لے کر پورے کیے ہیں۔
تاہم حزبِ اختلاف میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ بس منصوبے پر 100 ارب کے لگ بھگ اخراجات آئے ہیں۔
اکتوبر 2017 میں اس منصوبے کے افتتاح کے وقت سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع پرویزخٹک نے 2018 کے انتخابات کے بعد اسے چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم جون 2019 میں موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے ادھورے منصوبے کا افتتاح کرنے سے انکار کردیا تھا۔
مارچ 2020 کے اوائل میں اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خیبر پختونخوا حکومت نے تین ماہ میں اس منصوبے کو مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور اسی بنیاد پر 13 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے اس منصوبے کا افتتاح کیا۔
افتتاح کے باوجود حکام کے بقول اس منصوبے کے بہت سے حصے نامکمل ہیں جس کے باعث آئے روز حادثات رُونما ہو رہے ہیں۔
اکتوبر 2017 میں بس منصوبے پر کام شروع ہوتے ہی ایک انجینئر گوہر خان نے منصوبے سے متعلق متعدد خامیوں کی نشاندہی کی تھی مگر انہیں نظر انداز کردیا گیا جس پر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔