رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ: 'سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہے'


بھارت کی سپریم کورٹ میں پانچ اگست 2019 کے اقدام کے خلاف دائر درخواست پر سماعت شروع ہوگئی ہے۔نریندر مودی حکومت نے چار سال قبل جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا۔

بھارتی حکومت کے اس اقدام کو چار سال قبل ہی چیلنج کیا گیا تھا جس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے 2019 میں ہی ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس کی سماعت اب ہو رہی ہے۔

اس بینچ کی سربراہی بھارت کے چیف جسٹس دھننجیا وائی چندر چود کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن ماؤل، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی اور سوریا کانت بینچ کا حصہ ہیں۔ عدالت نے کیس کے فریقوں سے کہا تھا کہ وہ ہر طرح کی دستاویزات 27 جولائی سے قبل عدالت میں پیش کردیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کرے گا۔ البتہ پیر اور جمعے کو کیس کی سماعت نہیں ہو گی۔

عدالت میں دائر تقریباً 20 درخواستوں کے حق میں دلائل دیتے ہوئے قانون دان کپل سبل نے بدھ کو کہا کہ آج کا دن کئی لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ پانچ اگست2019کو تاریخ کو کیوں پلٹ دیا گیا اور بھارتی پارلیمنٹ نے اس اقدام کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا ، وہ کیا ان اصولوں سے میل کھاتا تھا جس پر جمہوریت کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کو خاموش کیا جاسکتا ہے؟

کپل سبل کے مطابق وہ جمعرات تک عدالت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کرتے رہیں گے۔

کیا بھارتی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا غیر آئینی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:34 0:00

اس سے قبل چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عدالت درخواست گزاروں کی طرف سے رہنمائی کرنے والے وکیل اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر دلائل پیش کرسکتے ہیں جب کہ دیگر وکلاءمختلف پہلوؤں پر دلائل پیش کرنے کے سلسلے کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ تاکہ دلائل میں کسی طرح کی اوورلیپنگ نہ ہو پائے۔

واضح رہے کہ آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ہند یونین میں ایک خصوصی آئینی پوزیشن حاصل تھی۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو نہ صرف دفعہ 370 کو منسوخ کیا تھا بلکہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا تھا۔ یہ علاقے اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں 20 درخواستیں دائر کی گئیں تھیں۔ تاہم دو درخواست گزاروں بیروکریٹ شاہ فیصل اور سابقہ اسٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید نے گزشتہ ماہ اپنی درخواستیں واپس لے لی تھیں۔

سپریم کورٹ میں تقریباً چار سال کی تاخیر کے بعد درخواستوں پر سماعت پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔

سابق وزیرِاعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کے دورۂ کشمیر کے فوری بعد دفعہ 370 کے معاملے کو اتنی مستعدی کے ساتھ کیوں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "چار سال تک خاموش رہنے کے بعد کیس کی روزانہ کی بنیاد پر شنوائی کرنے کے فیصلے نے بد گمانیوں کو جنم دیا ہے۔ امید ہے کہ اس ملک کے آئین کو جس پر عدلیہ حلف لیتی ہے عام لوگوں کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے طاقت کی قربان گاہ پر قربان نہیں کیا جائے گا۔"

بھارت کی حکومت اور بی جے پی کا مؤقف ہے کہ دفعہ 370 ایک عارضی آئینی شق تھی جسے بھارتی صد ر صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کرسکتے تھے اور پانچ اگست کو ایسا ہی کیا گیا۔ حکومت کے بقول اس تمام عمل کی توثیق بھارتی پارلیمنٹ نے بھی کثرتِ رائے سے کی تھی۔

تاہم محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا اور سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے گی ۔ انہوں نے بدھ کو سری نگر میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ"سپریم کورٹ امید کی آخری کرن ہے۔"

قبل ازیں بھارت کی حکومت نے 10 جولائی کو عدالت میں ایک بیانِ حلفی جمع کرایا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی طرف سے پانچ اگست 2019کو دفعہ 370 کی منسوخی کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں امن بحال ہوا ہے۔علاقے میں تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہے اور جموریت کو نچلی سطح پر لے جایا گیا ہے۔

البتہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ حکومت کے تازہ بیان حلفی میں کیے گیے ان دعوؤں کا کیس کی آئینی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

دوسری جانب جموں و کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے بیانات میں بھی کہا تھا کہ عدالت کے بینچ کے سامنے یہ سوال زیرِ غور ہوگا کہ کیا پانچ اگست 2019 کو حکومت کی طرف سے لیے گئے فیصلے کا کوئی آئینی جواز ہے یا نہیں۔

اس کیس کو مارچ 2020 میں سپریم کورٹ میں پہلی بار اٹھایا گیا تھا، اس وقت پانچ رکنی بینچ نے کئی درخواست گزاروں کی اپیل کے باوجود درخواستوں کو سات ججز پر مشتمل بینچ کو بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG