رسائی کے لنکس

پاکستان میں دہشت گردی: 'افغانستان میں فوجی کارروائی آخری آپشن ہو گا'


پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں طالبان حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہ دے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان اب طالبان پر دباؤ مزید بڑھا رہا ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔

افغانستان کے اندر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کے سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ طالبان حکومت خود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔"

'لگتا ہے پاکستان، طالبان حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں'

مبصرین جولائی کو پاکستان کے لیے گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ خون ریز مہینہ قرار دیتے ہیں۔

امریکی ادارہ برائے امن (یو ایس آئی پی) کے ساتھ وابستہ سینئر تجزیہ کار اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر خارجہ طالبان حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔

ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیوں کے لیے مبینہ امریکی تعاون پر اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔ لہذٰا امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو۔

اُن کے بقول ماضی میں بھی امریکہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان سے تعاون کرتا رہا ہے۔ لہذٰا مستقبل میں بھی یہ تعاون جاری رہے گا۔

اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کا حالیہ دورۂ کابل بھی بظاہر کامیاب نہیں رہا۔

اُن کے بقول اس دورے کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

'پاکستان دباؤ بڑھاتا رہے گا'

پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً سرحد عبور کر کے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔ تاہم پاکستان اس سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان کے پاس جیٹ طیارے اور ڈرون استعمال کرنے کے آپشن بھی موجود ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں پاکستان نے مشرقی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ایک ٹھکانے پر حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس آپریشن میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت پر افغان طالبان کی جانب سے سخت ردِعمل آیا تھا۔

اسفندیار میر کے مطابق ملٹری آپریشن آخری آپشن ہو گا۔ لہذٰا پاکستان، افغان طالبان پر دباؤ بڑھانے پر ہی اکتفا کرے گا۔

'مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے'

پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اندر جیٹ یا ڈرون طیاروں کے استعمال کے بجائے پاکستان کو مذاکرات کا سہارا لینا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے افغانستان کے اندر کارروائی کی امریکی تائید حاصل ہے۔ تاہم اس سے معاملات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔

سید عرفان اشرف کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اندرونی طور پر سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کی مخدوش صورتِ حال سے دوچار ہے، ایسے میں افغانستان کے ساتھ جنگی جنون اسے مزید عدم و استحکام کا شکار کر سکتا ہے۔

ان کے بقول جب امریکہ اور اس کے اتحادی 20 برسوں میں اتنی بڑی فوج، جنگی اور ڈرون طیاروں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے تو پاکستان بھلا کیسے سرحد پار دہشت گردوں کو شکست دے سکتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں 20 برس تک جاری رہنے والے جنگ میں مقاصد حاصل نہیں کر پائے تھے۔ امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور دیگر دہشت گردوں تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے نتیجے میں آج دنیا پہلے سے بہت محفوظ ہے۔

ٹی ٹی پی کے بڑھتے حملے، حکومت کی حکمت عملی کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:58 0:00


سید عرفان اشرف کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو افہام و تفہم کے ساتھ حل کرے اور مستقبل میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کرے۔

بلاول بھٹو نے مزید کیا کہا تھا؟

بلاول بھٹو نے منگل کو اپنے خطاب میں طالبان حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی حکومت جو حال ہی میں وجود میں آئی ہو، اسے بارڈر مینجمنٹ اور تربیت یافتہ فوج بنانے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لہذا اس ضمن میں پاکستان مدد کے لیے تیار ہے۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ کے بیان پر فی الحال طالبان حکومت کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ تاہم ماضی میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ افغان سرزمین کی دہشت گردی کے واقعات کے لیے استعمال کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل مانیٹرنگ کمیٹی (یو این ایس سی) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو کہ افغان سرحد سے قبائلی علاقہ جات میں اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے صرف جولائی میں 98 واقعات کی ذمے داری قبول کی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG