رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کی زیرِ حراست خواتین رہنما؛’جن مقدموں میں سزا ہو چکی ان میں بھی تفتیش کی جاری ہے‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • قومی اسمبلی کی سابق رکن عالیہ حمزہ اور ایک سرگرم کارکن صنم جاوید کو نو مئی 2023 کو راہوالی کینٹ کے گھیراؤ جلاؤ کے ایک مقدمے میں حراست میں لیا گیا۔
  • دونوں خواتین رہنماؤں کو جس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے اس میں 51 ملزمان کو پہلے ہی سزائیں ہو چکی ہیں۔
  • وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ ایک وعدہ معاف گواہ کے بیان کی بنیاد پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

سرگودھا میں اس وقت صنم جاوید کی گرفتاری ڈرامائی انداز میں ہوئی ہوئی جب وہ اپنے خلاف ایک مقدمے میں ضمانت پر رہا ہو کر جیل سے باہر نکل رہی تھیں۔

صنم جاوید کی رہائی کے بعد گرفتاری بدھ کو ہوئی تو اگلے ہی روز عالیہ حمزہ کو بھی ضمانت کے بعد حراست میں لے لیا گیا۔

پی ٹی آئی کی ان دونوں خواتین رہنماؤں کو گوجرانوالہ پولیس نے ضمانت منظور ہونے کے بعد سرگودھا جیل سے رہائی کے بعد گرفتار کیا اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر کے ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔

قومی اسمبلی کی سابق رکن عالیہ حمزہ اور ایک سرگرم کارکن صنم جاوید کو نو مئی 2023 کو راہوالی کینٹ کے گھیراؤ جلاؤ کے ایک مقدمے میں تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحویل میں دیا گیا ہے۔

صنم جاوید کو اب 10 جون کو جب کہ عالیہ حمزہ کو 11 جون کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

سزا کے بعد تفتیش جاری

نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گوجرانوالہ کے قریب راہوالی کینٹ کے باہر بھی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔

اس واقعے میں پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف 10 مئی 2023 کو آرمی چیک پوسٹ راہوالی کینٹ، فوج اور پولیس اہل کاروں پر حملے کا مقدمہ تھانہ کینٹ میں درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں ناجائز اسلحہ، قتل و دہشت گردی کی دفعات شامل تھیں۔ ایف آئی آر کے مطابق سرکاری گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ ایس ایس پی انویسٹیگیشن، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سمیت آٹھ افسران و اہل کار زخمی جب کہ راشد مقبول نامی ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔ مقدمے میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے رواں سال 30 مارچ کو راہوالی چیک پوسٹ پر حملہ کیس کے مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا جس میں 51 نامزد ملزمان کو ایک سے پانچ سال تک قید کی سزائی سنائی گئی تھیں۔

تاہم اس ’ہائی پروفائل‘ مقدمے کے بارے میں پولیس کی تفتیش تاحال جاری ہے اور صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کو اقبال جرم کرنے والے ایک مبینہ ملزم کے بیان کی روشنی میں ہی ملزمہ قرار دیتے ہوئے حراست میں لیا گیا ہے۔

جمعے کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں جوائنٹ انویسٹی گیشن کے رکن پولیس آفیسر نے اسی مقدمے میں سابق رکن قومی اسمبلی عالیہ حمزہ کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اس مقدمے میں ملزمہ کا فوٹو گرامیڑی ٹیسٹ، وائس میچنگ ٹیسٹ، ملزمہ سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے پاسورڈز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کرنی ہے۔

عالیہ حمزہ ملک کے وکلاء نے عدالت میں اپنے دلائل مکمل کیے اور موقف اختیار کیا کہ وہ بے قصور ہے جنہیں ناجائز مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔

جمعرات کو صنم جاوید کو بھی اسی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس سماعت میں وکلائے صفائی کے علاوہ زیرحراست ملزمہ صنم جاوید نے بھی جج سے اجازت لے کر بات کی تھی۔

صنم جاوید نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کے الزامات میں ایک ہائی پروفائل میٹنگ میں ہونے والی سازش کا ذکر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’جب میٹنگ ہوئی اس وقت میں پی ٹی آئی کی کارکن تھی نہ ہی عہدے دار، تو میں کسی میٹنگ میں کیسے شریک ہو سکتی ہوں؟‘‘

عدالت نے پراسیکیوشن اور وکلائے صفائی کے دلائل سننے کے بعد دونوں خواتین رہنماؤں کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحویل میں دینے کا حکم جاری کیا۔

رہائی کے بعد گرفتاری

نو مئی کے بعد عالیہ حمزہ ملک کو چار مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تین مقدمات میں ان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے جب کہ ایک مقدمے میں انہیں ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

عالیہ حمزہ کے وکیل حسان ایڈووکیٹ نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سرگودھا سے رہائی کے بعد گوجرانوالہ سے جانے والی پولیس ٹیم نے صنم جاوید پر پانچواں مقدمہ بنا کر گرفتار کیا ہے۔

حسان ایڈووکیٹ کے مطابق مقدمے میں الزام ہے کہ راہوالی کینٹ میں عالیہ حمزہ ملک کی ایما پر ہنگامہ آرائی کی گئی تھی۔ عدالت اس کیس میں پہلے ہی 51 ملزمان کو سزائیں دے چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں 72 گواہوں کے بیانات قلم بند ہوئے جن میں کہیں بھی عالیہ حمزہ کا نام شامل نہیں تھا۔ اچانک 8 مئی 2024 کو ایک شخص سے بیان دلوایا گیا کہ زمان پارک لاہور میں عالیہ حمزہ نے کہا کہ اگر عمران خان گرفتار ہو جاتے ہیں تو آپ لوگوں نے گوجرانوالہ جا کر احتجاج کرنا ہے۔

وکیل صفائی حسان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پراسیکیوشن نے عالیہ حمزہ پر گھیراؤ جلاؤ اور اشتعال انگیزی کے الزامات لگائے اور جن ویڈیو کلپس کا حوالہ دیا، ہم نے ان کو چیلنج کیا اور کہا کہ ویڈیوز عدالت میں پیش کریں۔ لیکن پراسیکیوشن ویڈیوز کی فراہمی میں ناکام رہا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گوجرانوالہ پولیس لیپ ٹاپ اور موبائل فون مانگ رہی ہے۔ ہم نے عدالت کو بتایا ہم لیپ ٹاپ اور موبائل فون پہلے ہی لاہور میں پولیس کے حوالے کر چکے ہیں اب انہیں گوجرانوالہ پولیس کو کیسے دیں۔

خصوصی عدالت کے باہر صنم جاوید کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید خان کو سرگودھا سے دہشت گردی کے دسویں مقدمہ میں ضمانت پر رہائی ملی تھی اور اب انہیں گیارہویں مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 13 ماہ بعد کریم نامی مشکوک شخص کے کہنے پر صنم جاوید کو اس مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے۔ کریم کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے جس کا کبھی پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی زیرِ حراست خواتین

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس وقت پارٹی کی چار خواتین زیرحراست ہیں جن میں سے ڈاکٹر یاسمین راشد، صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کو گرفتار ہوئے 399 دن جب کہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو گرفتار ہوئے 130 دن پورے ہو گئے ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد پر کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے سمیت متعدد مقدمات ہیں۔ چند روز پہلے انہیں طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم طبی امداد ملنے کے بعد واپس جیل بھجوا دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی زیرحراست خواتین میں شامل ہیں۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں رواں سال تین فروری کو عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں عمراں خان اور بشری بی بی کو سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کتنی گرفتاریاں ہوئیں؟

نو مئی کے واقعے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں 9 سے 15 مئی کے دوران 400 سے زائد خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن میں سے اکثریت کو دو سے تین ہفتوں کی قانونی جدوجہد اور اور ہائی کورٹس میں پٹیشنز کے بعد رہا کیا گیا جب کہ ملیکہ بخاری، فلک ناز چترالی اور مسرت چیمہ وہ خواتین رہنما ہیں جنھیں پریس کانفرنس کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

تاہم نو مئی واقعات میں ملزمان کی گرفتاریوں کے ایک ماہ بعد ہی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے 42 خواتین کو ایک ماہ کے اندر ضمانت پر رہا کیا گیا۔

ان مقدمات میں زیادہ تر ان خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے جو پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی حمایت میں بات کرتی تھیں۔ ان میں کچھ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی شامل تھیں۔

صنم جاوید خان بھی سوشل میڈیا انفلوئنسر اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حامی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے قبل کے دنوں میں وہ اکثر زمان پارک کے باہر دیگر خواتین کارکنان کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔

عالیہ حمزہ سابق ممبر قومی اسمبلی ہیں جن کو 9 مئی کے واقعہ کے بعد پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا اور وہ ابھی تک حراست میں ہیں۔

طویل حراست کے بعد رہائی پانے والوں میں امریکی شہریت رکھنے والی فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ شامل ہیں۔ وہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی نواسی ہیں جب کہ اُن کے والد سلمان شاہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ رہ چکے ہیں۔

اس وقت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی چار خواتین بشری بی بی، ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید زیر حراست ہیں۔ دیگر خواتین کو ضمانت مل چکی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG