رسائی کے لنکس

خون آلود ورق پر سبز روشنائی سے لکھا تھا،اے اللہ ہماری حفاظت فرما!


آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔ فائل فوٹو
آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔ فائل فوٹو

پانچ سال قبل 2014 کی ايک سرد دوپہر اسلام آباد میں تھا کہ تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان کی کال موصول ہوئی جس ميں آرمی پبلک سکول پر حملے کے ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ٹيلويژن آن کيا تو ہر طرف بريکنگ نيوز چل رہی تھيں۔

اسلام آباد سے پشاور پہنچا تو فضا ميں ہر طرف بارود کی بُو رچی ہوئی تھی۔ آرمی پبلک سکول جانے والے تمام راستے بند تھے چنانچہ سيکیورٹی حالات کے پيش نظر جائے وقوعہ پر اس وقت نہ جا سکا۔۔ ليکن ہر ديوار پر، بجلی کے کھمبوں کے ساتھ ايک تحرير آويزاں تھی کہ آرمی پبلک سکول کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ رات دس بجے ادا کي جائے گی۔

بوجھل دل کے ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے نويں جماعت کے ایک طالب علم، سائبان کے گھر کے باہر پہنچا تو وہاں بيٹھا کوئی بھی شخص سائبان کے والد ضابطہ خان سے نظريں نہیں ملا پا رہا تھا۔ گويا ہر کوئی بے گناہ جان گنوانے والے سائبان کے والد سے شرمندہ تھا کہ ان کے بچے کو تحفظ نہیں دے سکا۔

اس رات ايک ضابطہ خان نہیں، چاليس لاکھ سے زائد آبادی کا شہر، پشاور، رو رہا تھا۔ رات بھی کٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اہل پشاور بھی شدید غم سے نڈھال تھے۔

اگلے دن سکول کا دورہ کيا۔ تو منظر قيامت سے کم نہیں تھا۔

جس ہال ميں بچے ليکچر سنا کرتے تھے۔ رزلٹس سنتے تھے۔ ڈيبيٹس کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ وہی ہال کیسے پچھلی صبح یونیفارم پہن کر گھر سے نکلنے والے ننھے بچوں کی قتل گاہ بنا ہو گا؟ یہ خیال ہی روح کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی تھا۔

ہال میں بچوں کے خون آلود بستے، اُلٹے سيدھے جوتے، چشمے، کتابيں اور قلم بکھرے پڑے تھے جن کی بیرونی سطح خون سے آلودہ ہو رہی تھی۔ اس سوال کا جواب وہاں کسی شخص کے پاس نہیں تھا کہ کوئی کتنا سخت دل بھی ہو، تو کيسے بھلا اتنے معصوم بچوں کو ایسی بے رحمی سے قتل کر سکتا ہے۔۔ پھرخيال آيا کہ دہشت گردوں کا انسانيت سے کوئی واسطہ ہو بھی کیسے سکتا ہے۔

سکول ميں جہاں جہاں بھی گيا، تین چيزيں ہر جگہ ديکھنے کو مليں۔ خون آلود کلاسيں، گوليوں کے نشان اور معصوم بچوں کی نہ سنائی دينے والی فرياديں۔

آرمی پبلک اسکول سے نکل رہا تھا کہ کسی نوٹ بُک کے پھٹے ہوئے خون آلود ورق پر نظر پڑی۔ اٹھا کر دیکھا تو سبز سياہی سے لکھا تھا، اے اللہ ہماری حفاظت فرما۔

کیا یہ نوٹ کسی طالب علم نے سکول میں موت کا ناچ دیکھنے سے ذرا پہلے لکھا تھا یا کئی دن پہلے؟ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس سے کوئی فرق بھی کیا پڑتا ہے؟

XS
SM
MD
LG