رسائی کے لنکس

سانحہ آرمی پبلک اسکول: متاثرہ والدین کا تحقیقاتی رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی عدالتی کمیشن نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے لیکن متاثرہ خاندانوں کی تنظیم نے اس رپورٹ کو عام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نے واقعے کی تحقیقات مکمل کر کے تین ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ نو جون کو سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔

متاثرہ طلبہ کے والدین کی تنظیم کے عہدیدار فضل خان کا کہنا ہے کہ رپورٹ رواں سال یکم جون کو مکمل کر لی گئی تھی جسے سپریم کورٹ میں نو جولائی کو جمع کرایا گیا ہے جس سے کئی شبہات نے جنم لیا ہے۔

اُن کے بقول اس رپورٹ میں بعض مقتدر قوتوں کو بچانے کی کوشش کیے جانے کا امکان ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فضل خان نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کو تحقیقاتی رپورٹ جلد از جلد شائع کرنا چاہیے تاکہ ہولناک سانحے کے ذمہ داروں کا معلوم ہو سکے۔

یاد رہے کہ عدالتی کمیشن نے تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرنے میں لگ بھگ دو سال کا عرصہ لیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے نو مئی 2018 کو متاثرہ والدین کی درخواست پر سانحے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہلاک ہونے والے طلباء کے والدین کی تنظیم کے عہدیدار فضل خان کا کہنا ہے کہ رپورٹ رواں سال یکم جون کو مکمل کر لی گئی تھی۔ تاہم رپورٹ 9 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرانے سے کئی شبہات نے جنم لیا ہے۔ (فائل فوٹو)
ہلاک ہونے والے طلباء کے والدین کی تنظیم کے عہدیدار فضل خان کا کہنا ہے کہ رپورٹ رواں سال یکم جون کو مکمل کر لی گئی تھی۔ تاہم رپورٹ 9 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرانے سے کئی شبہات نے جنم لیا ہے۔ (فائل فوٹو)

پشاور ہائی کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کے ترجمان عمران اللہ کے مطابق تحقیقاتی کمیشن نے سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات قلم بند کیے ہیں۔

عمران اللہ کا کہنا ہے کہ کمیشن نے 101 گواہان، فوج، پولیس اور دیگر سول انتظامیہ کے 31 اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری کالعدم 'تحریک طالبان پاکستان' اور بعد ازاں اس سے علیحدہ ہونے والی تنظیم 'جماعت الاحرار' کے ترجمان قاری احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی۔

احسان اللہ احسان فوج کی تحویل میں تھے اور فوج کے حکام کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان کے سابق ترجمان نے خود کو فوج کے حوالے کیا تھا۔ بعدازاں احسان اللہ احسان فوج کی حراست سے فرار ہو گئے تھے۔

اس سانحے میں ہلاک ہونے والے ایک طالب علم کی والدہ شاہانہ اجون خان نے پشاور ہائی کورٹ کے عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کم از کم یہ معلوم ہو جائے گا کہ کس نے اور کس لیے اسکول کے بے گناہ بچوں کو ہلاک کیا اور کیوں بے چارے والدین کے گھر اُجاڑے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے ذمہ دار صرف قاتل یا دہشت گرد نہیں بلکہ ذمہ دار تو وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس حملے کے وقت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

اُن کے بقول تمام متاثرہ والدین کا متفقہ مطالبہ ہے کہ قاتلوں اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

ایک اور متاثرہ والد طبغل خٹک نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل اور اس کے شائع ہونے سے متاثرہ والدین کو کم از کم اتنا اطمینان ہو جائے گا کہ دہشت گرد حملے میں کون ملوث تھا اور ان کے کیا مقاصد تھے۔

طبغل خٹک نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ رپورٹ کی روشنی میں تمام ملزمان کے خلاف کاروائی کر کے اُنہیں سزا دی جائے۔

یاد رہے کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عسکریت پسندوں کے خلاف مقدمات جلد از جلد نمٹانے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

تاہم فوجی عدالتوں کو دوسری بار توسیع نہیں دی گئی۔ فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے 200 کے قریب مبینہ دہشت گردوں کی پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں منظور ہوئیں اور اُنہیں باعزت بری کرنے کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔

لگ بھگ 180 دیگر ملزمان کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اب تک پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں۔

XS
SM
MD
LG