پاکستان میں وزارت دفاع کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں پاکستان کی پارلیمان سے توسیع نہ ہونے کے باعث زیر التوا کیسز کو وفاق کو واپس بھجوا دیا جائے گا اور وفاق ان کیسز کے متعلق فیصلہ کرے گا۔
اس سلسلے میں وزارت دفاع نے تحریری طور پر لاہور ہائی کورٹ راول پنڈی بینچ میں جواب داخل کروا دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ راول پنڈی میں میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے اپنے بیٹے عبداللہ صالح کے حوالے سے پٹیشن دائر کی تھی جس کے متعلق وزارت دفاع نے جواب جمع کروایا ہے۔
عبداللہ صالح کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ عبداللہ صالح کے خلاف کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے گا، لیکن تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کا کیس فوجی عدالت میں نہیں چلایا جا سکا۔
میجر محمد صالح نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے وکیل انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواست دائر کی جس پر فوج نے جواب دیا ہے کہ عبداللہ صالح مبینہ طور پر دہشت گردی میں ملوث تھا اور اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہونا تھا، لیکن یہ کیس فوجی عدالتوں میں توسیع نہ ہونے کے باعث زیر التوا ہے۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں عبداللہ صالح اور دیگر زیر التوا مقدمات کو وفاق کے پاس بھجوا دیا جائے گا۔ اس بارے میں عدالت کو مناسب وقت پر آگاہ کر دیا جائے گا۔ اگر عدالت کو مزید تفصیلات درکار ہوں تو وہ چیمبر میں فراہم کی جا سکتی ہیں۔
وزارت دفاع نے دائر کردہ پٹیشن کو نمٹانے کی بھی درخواست کی۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا کہ اس وقت زیر التوا کیسز کی تفصیلات صرف وزارت دفاع اور فوج کے پاس ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق فوج کے حراستی مراکز میں موجود افراد کی تعداد تین سے پانچ ہزار کے قریب ہے۔
انعام الرحیم نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اب اگر کوئی کیس چلایا جائے گا تو اس میں کوئی بھی حکم غیرقانونی ہو گا۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد دو سال کے لیے قائم کی گئی تھیں اور بعد ازاں ان کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی جو اس سال کے شروع میں ختم ہو گئی۔ حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کے لیے اپوزیشن پارٹیوں سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ توسیع کے لیے حکومت ٹھوس وجوہات پیش کرے۔