وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کا خدشہ اب بھی موجود ہے۔ اس لیے احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد کرنا انتہائی ضروری ہے۔
معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کیسز بڑھنے یا کم ہونے کا انحصار شہریوں کے رویوں پر ہے۔
منگل کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن عوام کو ماسک کا استعمال کم نہیں کرنا چاہیے۔
اُن کے بقول ذرا سی بے احتیاطی پاکستان کو پہلے جیسی صورتِ حال میں واپس لا سکتی ہے۔
ادھر ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے اب کرونا وائرس کو بھلا دیا ہے۔
لاہور کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کرونا ایڈوائزی گروپ پنجاب کی رکن پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کرونا سے پہلے کی زندگی لوٹ آئی ہے جو کہ سراسر غلط سوچ ہے۔
اُن کے بقول لوگ شمالی علاقہ جات کا رُخ کر رہے ہیں، اپنے روزمرہ کے معمولات میں احتیاط نہیں کر رہے جو نقصان دہ اور وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار کے بقول لوگوں نے حکومت کے وضع کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد چھوڑ دیا ہے۔ ماسک کی پابندی ہو رہی ہے اور نہ سماجی فاصلوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے کہا کہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جن ملکوں میں وبا میں کمی آئی وہاں لوگوں نے جب احتیاط چھوڑی تو وائرس نے دوبارہ سر اُٹھایا۔
اُن کے بقول، "گو کہ پاکستان میں ابھی بھی صورتِ حال کنٹرول میں ہے، لیکن شہریوں کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔"
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے رواں ماہ کرونا کی وجہ سے عائد کئی پابندیاں ہٹا لی تھیں۔
ڈاکٹر صومیہ کا کہنا ہے کہ جس طرح اب لوگ آپس میں گھل مل رہے ہیں، سیاحتی مقامات پر رش بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے پیشِ نظر اگلے 15 روز بہت اہم ہیں۔
اُن کے بقول محرم کا مہینہ بھی آ رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر جلوس اور مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لہذٰا شہریوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا ورنہ وائرس کی دوسری لہر بھی آ سکتی ہے۔
ادھر قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) نے کرونا سے بچاؤ کے لیے چین کی ویکسین کے تیسرے مرحلے میں کلینیکل ٹرائل کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ( ڈریپ) سے منظوری لے لی ہے۔
این آئی ایچ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کی ویکسین کو کلینیکل جانچ پڑتال کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی ویکسین کا یہ پہلا فیز تھری کلینیکل ٹرائل ہو گا۔
کینسینو بائیو اینڈ بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کی تیار کردہ اس ویکسین کے پہلے ہی چین، روس، چلی اور ارجنٹائن میں ٹرائل جاری ہیں۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے اس پیش رفت پر کہا کہ پاکستان میں اپنی تو کوئی ویکسین نہیں بن رہی لہذا بیرونی ممالک سے جو ویکسین آ رہی ہے وہ ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ہے۔
اُن کے بقول ہر ویکسین کی تیسرے مرحلے میں ایک آزمائشی جانچ پڑتال ہوتی ہے جس میں اُس کے اثرات کو دیکھا جاتا ہے اور اِس کے لیے دوسرے ممالک سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صومیہ کے بقول ویکسین کے ٹرائل میں یہ تعین کیا جاتا ہے کہ مذکورہ دوا دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والوں کے لیے کتنی سود مند ہے اور ان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اُن کے بقول چینی کمپنی کی اس ویکسین کے آزمائشی عمل میں پاکستان کی شرکت حوصلہ افزا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کرونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد دو لاکھ 89 ہزار سے زائد ہے جب کہ اس مہلک وبا سے اموات کی مجموعی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے۔