انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل کے مطابق 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں دنیا بھر میں پھانسی کی سزاؤں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی۔
جن ملکوں میں سزائے موت کے رجحان میں کمی آئی ان میں پاکستان اور ایران بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بیلاروس میں یہ سزائے موت کی شرح سب سے زیادہ رہی جہاں 2018ء میں چار افراد کو سزائے موت دی گئی۔ ایک سال قبل 2017ء میں یہ تعداد دو تھی۔
ایمسنٹی انٹرنیشنل نے یہ اعداد و شمار بدھ کو جاری کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایران جہاں سب سے زیادہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے، وہاں انسدادِ منشیات کے قوانین میں تبدیلی کے باعث پھانسی کے رجحان میں 50 فی صد کمی آئی ہے۔
لیکن ایمنسٹی نے الزام لگایا ہے کہ ایران میں موت کی اکثر سزائیں غیر شفاف ٹرائل کے بعد دی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف پاکستان، عراق اور صومالیہ میں بھی سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ان ملکوں میں کمی کا اثر مجموعی طور پر دنیا بھر میں سزائے موت میں کمی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں 2018ء میں 690 افراد کو پھانسی دی گئی جب کہ 2017ء میں یہ تعداد 993 تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل کومی نائڈو نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں موت کی سزا پر عمل درآمد میں کمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ملک جہاں یہ شرح زیادہ تھی، وہ بھی سزائے موت کو جرائم پر قابو پانے کا حل نہیں سمجھتے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں چین کو شامل نہیں کیا گیا جہاں عام خیال یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ لیکن چین کی حکومت ان اعدادوشمار کو خفیہ رکھتی ہے۔
بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے بھی سزائے موت کے فیصلوں میں کمی آئی ہے۔ 2017ء میں مختلف ملکوں کی عدالتوں نے صرف 253 افراد کو موت کی سزا سنائی جو سال 2010ء کے بعد سب سے کم تعداد ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 2018ء میں 14 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اور یہ تعداد 2017ء کے مقابلے میں یہ 77 فی صد جبکہ 2016ء کے مقابلے میں یہ تعداد 86 فی صد کم ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ کہ امریکہ میں عدالت کے حکم پر سزائے موت کی تعداد 2017ء میں 23 سے بڑھ کر 2018ء میں 25 ہو گئی ہے۔
تنظیم کے مطابق امریکہ میں 2018ء میں سزائے موت پانے والوں میں سے 13 کو ٹیکساس کی ریاست میں سزائے موت دی گئی۔