نفیسہ ہود بھائی
ایک غیر سرکاری ادارے جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال جتنے افراد کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے، ان میں سے ہر آٹھواں شخص پاکستانی ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2014 سے 546 افراد قتل کے کیسوں میں ملوث پائے گئے، لیکن سپریم کورٹ نے ان میں سے 467 افراد کی موت کی سزا ختم کر دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود دنیا بھر میں ہر آٹھواں شخص جس کو پھانسی کی سزا مل سکتی ہے، پاکستانی ہے۔
انسانی حقوق کمشن کے چیئرمین پروفیسر مہدی حسن پھانسی کی سزا کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں چونکہ ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کا چیئر پرسن بھی ہوں اور ہم موت کی سزا کے ہی خلاف ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ موت کی سزا سے قتل کے واقعات میں کمی نہیں ہوتی۔ اب آج کل جو پھانسیاں ہو رہی ہیں، ان میں یہ کہا گیا ہے کہ دہشت گردی میں کمی ہو رہی ہے۔ زیادہ تر دہشت گرد تو ویسے ہی فوج کے مقابلے میں مارے جاتے ہیں یا گرفتار ہو جاتے ہیں۔ گرفتاری کے بعد ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور فوجی عدالتوں کی سزا کی توثیق چیف آف آرمی سٹاف کرتے ہیں اور ان کو پھانسیاں دی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کمشن، قانون کی بالا دستی میں یقین رکھتا ہے، جس کے تحت دہشت گردوں کے مقدموں کو عدالتوں میں لانا ضروری ہے، تا کہ انہیں یا تو سزا دی جائے، یا بری کیا جائے۔
پروفیسر مہدی حسن نے کہا کہ ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کا تو موقف یہ ہے کہ موت کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ انسان کو کوئی ایسی سزا دینے کا حق نہیں ہے جسے واپس نہ کیا جا سکے۔ اور یہ کہا جاتا ہے، اور یہ دنیا کی ایک مشہور کہاوت بھی ہے کہ اگر ایک آدمی کو بھی غلط پھانسی ہو جائے تو جتنی جائز پھانسیاں دی گئی ہیں تو وہ بھی ساری مشتبہ ہو جاتی ہیں۔
دوسری طرف فاٹا کے سابق سیکیورٹی چیف بریگیڈیر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ پھانسی کی سزا اس لیے ضروری ہو گئی تھی کیونکہ ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تو اس سلسلے میں پاکستان کو آٹھواں نمبر دے رہے ہیں، لیکن میرے خیال میں جہاں پاکستان کے 80 ہزار لوگ مارے گئے ہیں، اس حوالے سے پتا نہیں ہے کہ پاکستان کا کیا نمبر ہے۔ میرا خیال ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں شاید پاکستانی شہریوں کی ہیں۔ ایسے واقعات میں اور ایسے حالات میں کڑی سزائیں دینا ایک حل ہے۔ اور میرے خیال میں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اتنے طاقت ور ہیں، کہ عام لوگ عام عدالتوں میں آ نہیں سکتے اور ان کے خلاف گواہی نہیں دے سکتے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ پیدا ہو جائے گا، اس لیے انہیں فوجی عدالتوں میں سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا۔