انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنیطم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فورسز کی کارروائیوں میں ہونے والی مبینہ ہلاکتوں کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پیر کو جاری ہونے والی’’لیفٹ ان ڈارک‘‘ نامی رپورٹ میں ابتدائی طور پر امریکہ اور اتحادی افواج کی فضائی اور رات کو کی گئی چھاپہ مار کارروائیوں سے متعلق ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی اور اتحادی فورسز کی افغانستان میں کارروائیوں میں مبینہ طور پر 2001ء سے لے کر اب تک ہزاروں عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیا پیسیفک پروگرام کے ڈائریکٹر رچرڈ بینٹ نے کہا کہ ’’افغانستان میں ہزاروں افغانی شہری امریکی فوجوں کے ہاتھوں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں لیکن اس کا نشانہ بننے والے افراد اور ان کے خاندانوں کے لیے انصاف ملنے کی توقع کم ہی ہے۔‘‘
رپورٹ میں افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل میں نیٹو اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے تمام سکیورٹی معاہدوں میں اس بات کو یقینی بنائی جائے کہ عام شہریوں کی غیر قانونی ہلاکتوں پر کارروائی کی جائےگی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2009ء اور 2013ء کے دوران ہونے والے 10 واقعات کی تفصیل کے ساتھ تحقیق کی ہے جن میں کم ازکم 140 افراد ہلاک ہوئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایسے واقعات کی تفتیش شاز و نادر ہی ہوتی ہے، جن میں عام شہری ہلاک ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکہ اور نیٹو فورسز کئی کارروائیوں کے بعد یہ قبول کر چکی ہیں کہ اُن میں شہری ہلاکتیں ہوئیں اور اُن کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں لیکن اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2009 سے اب تک افغانستان میں 12 ہزار افراد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ہلاکتوں میں سے صرف تین فیصد بین الاقوامی فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے۔
جب کہ باقی افغان فوجیوں یا حکومت مخالف جنگجوؤں کے کارروائیوں میں ہلاک ہوئے۔
امریکہ یا اتحادی افواج کی طرف سے ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔