واشنگٹن —
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے مالدیپ میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مالدیپ کے حالات کو نظر انداز نہ کرے۔
ایمنسٹی کے لندن میں واقع صدر دفتر نے منگل کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں مالدیپ میں پولیس کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران میں حزبِ اختلاف کے حامیوں اور راہ گیروں پر ہدف بنا کر حملے کرنےکے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے مالدیپ کے پہلے صدر محمد ناشید نے رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے ملک میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
محمد ناشید کے حامیوں کا موقف ہے کہ انہیں زبردستی اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مظاہروں کے دوران میں مالدیپ کی پولیس اور فوج نے پرامن مظاہرین کےخلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا۔
رپورٹ کےمطابق صدارتی اختیارات کی منتقلی کے باوجود مالدیپ کے سیکیورٹی ادارے حکومت مخالفین کے ساتھ مار پیٹ اور بلاامتیاز گرفتاریوں سمیت انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک ان واقعات کے کسی ایک بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے حزبِ اختلاف کی 'مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی' کے حامیوں ہی نہیں بلکہ رہنمائوں، سابق وزرا اور قانون سازوں کے خلاف بھی کاروائیاں کی ہیں۔
یاد رہے کہ مالدیپ میں سیاسی تبدیلی کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی حمایتِ یافتہ کمیشن نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں صدر ناشید کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا تھا کہ انہیں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
اس کے برعکس کمیشن نے مالدیپ میں انتقالِ اقتدار کو قانون اور آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔
جمہوریہ مالدیپ بحیرہ ہند میں واقع 1200 سے زائد جرائر پر مشتمل مسلم اکثریتی ملک ہے جو اپنے ساحلی مقامات اور قدرتی حسن کے باعث سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔
ایمنسٹی کے لندن میں واقع صدر دفتر نے منگل کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں مالدیپ میں پولیس کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران میں حزبِ اختلاف کے حامیوں اور راہ گیروں پر ہدف بنا کر حملے کرنےکے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے مالدیپ کے پہلے صدر محمد ناشید نے رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے ملک میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
محمد ناشید کے حامیوں کا موقف ہے کہ انہیں زبردستی اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مظاہروں کے دوران میں مالدیپ کی پولیس اور فوج نے پرامن مظاہرین کےخلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا۔
رپورٹ کےمطابق صدارتی اختیارات کی منتقلی کے باوجود مالدیپ کے سیکیورٹی ادارے حکومت مخالفین کے ساتھ مار پیٹ اور بلاامتیاز گرفتاریوں سمیت انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک ان واقعات کے کسی ایک بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے حزبِ اختلاف کی 'مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی' کے حامیوں ہی نہیں بلکہ رہنمائوں، سابق وزرا اور قانون سازوں کے خلاف بھی کاروائیاں کی ہیں۔
یاد رہے کہ مالدیپ میں سیاسی تبدیلی کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی حمایتِ یافتہ کمیشن نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں صدر ناشید کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا تھا کہ انہیں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔
اس کے برعکس کمیشن نے مالدیپ میں انتقالِ اقتدار کو قانون اور آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔
جمہوریہ مالدیپ بحیرہ ہند میں واقع 1200 سے زائد جرائر پر مشتمل مسلم اکثریتی ملک ہے جو اپنے ساحلی مقامات اور قدرتی حسن کے باعث سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔