رسائی کے لنکس

جنرل اسمبلی میں یروشلم کی حیثیت پر قرارداد بھاری اکثریت سے منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے جمعرات کی ووٹنگ سے قبل دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک ہم سے لاکھوں بلکہ کروڑوں اور اربوں ڈالر امداد لیتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ کی جانب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کر لی۔ قرار داد کے حق میں 128 اور مخالفت میں صرف 9 ووٹ آئے۔ جب کہ اس موقع پر 35 ملک غیر حاضر رہے۔

قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دینے میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ مارشل آئس لینڈز، ٹوگو، پلاؤ، نائیور، اور مائکرونیشیا نے دیا۔

اس سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے دھمکی دی تھی کہ امریکہ یہ دیکھے گا کہ کون سے ملک اقوام متحدہ میں امریکہ کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ اس دن کو یاد رکھے گا جس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کو اس معاملے پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے اس کا حق تھا۔

ہم اس دن کو یاد رکھیں گے کہ جب ہمارے بارے میں یہ ایک بار پھر یہ بتایا جائے گا کہ ہم اقوام متحدہ کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی یاد رکھیں گے کہ جب وہ ہمیں مدد کے لیے کاریں گے، جیسا کہ وہ عموماً ہمیں زیادہ فنڈز دینے کے لیے اور اپنے مفاد میں اثر ورسوخ استعمال کرنے کے لیے کہتے ہیں۔

قرار داد پر رائے شماری سے پہلے بحث ہوئی جس میں کئی ملکوں کے سفیروں نے یروشلم کے بارے امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اپنے ملک کا نقطہ نظر پیش کیا۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے لیے پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کے جائز مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ بیت المقدس کے بارے میں امریکہ کا فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ ہم بیت المقدس کی حیثیت بدلنے والا کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ فلسطینیوں کی آخری امید ہے۔ دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی فیصلہ قبول نہیں ہوگا۔ پاکستان مقبوضہ بیت المقدس سے متعلق قرار دار کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی طویل عرصے سے جاری پالیسی کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے اس مہینے کے شروع میں کہا تھا کہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تصور کرتا ہے اور وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا عمل شروع کر رہاہے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی فلسطین، عرب ملکوں اور اسلامی دنیا میں احتجاجي مظاہرے شروع ہو گئے اور دنیا کے اکثر ملکوں نے امریکہ کا موقف مسترد کر دیا۔

اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ مشرق وسطی جنگ کے دوران یروشلم کا علاقہ اردن سے چھین لیا تھا۔ دنیا نے اس کا یہ قبضہ تسلیم نہیں کیا اور وہ یروشلم سمیت فلسطین کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر یہ زور دیتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاكرات کرے۔

برسوں سے جاری امن مذاكرات میں امریکہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے ساتھ مذاكرات میں ایک ثالث کا کردار ادا کرتا آ رہا ہے لیکن یروشلم کی حیثیت پر صدر ٹرمپ کے فیصلے کے بعد فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ اب امریکہ اس تنازع میں ثالث نہیں رہا اور وہ جانب دار بن گیا ہے۔

پیر کے روز یروشلم پر امریکی فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایک قرار د اد پیش کی گئی تھی۔ 15 رکنی اس کونسل میں 14 ارکان نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا اور امریکہ نے اس قرار داد کو ویٹو کرتے ہوئے اس کا راستہ روک دیا۔

جس کے بعد 193 رکن ملکوں پر مشتمل جنرل اسمبلی میں قرار داد لائی گئی۔

صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے جمعرات کی ووٹنگ سے قبل دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک ہم سے لاکھوں بلکہ کروڑوں اور اربوں ڈالر امداد لیتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس کے دوران کہا کہ ہم ان ملکوں پر نظر رکھیں گے جو ہمارے خلاف ووٹ دیں گے۔ انہیں ہمارے خلاف ووٹ دینے دیں ۔ ہمیں ان کی مدد سے ہاتھ روکنے سے بڑی بچت ہوگی۔ ہمیں ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔

پیر کے روز سیکیورٹی کونسل میں قرار داد پر ووٹنگ کے موقع پر نکی ہیلی نے کہا تھا کہ امریکہ کو یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ اپنا سفارت خانہ کہاں قائم کرے۔

انہوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کے سفیروں کو اس سلسلے میں خطوط بھی لکھے۔ اقوام متحدہ میں کئی سفیروں نے بتایا کہ انہیں نکی ہیلی کی جانب سے خطوط ملے ہیں لیکن یہ خط ان کے ملک کا موقف تبدیل نہیں کر سکتے۔

جنرل اسمبلی سے منظور کی جانے والی قرار داد کی پابندی لازمی نہیں ہے، لیکن اس کا ایک اخلاقی وزن ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے باوجود امریکہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے۔

XS
SM
MD
LG