ایران کے سامان پر امریکی پابندیوں کے اطلاق کے بعد منگل کے روز تیل کی قیمتوں میں تیزی آئی، جس سے اقتصادی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نومبر میں ایران کے تیل کی برآمدات پر پابندی لگنے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی فراہمی کم ہو سکتی ہے اور اس کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
اوپیک کے رکن ملک ایران پر امریکی پابندیوں کا اطلاق رات بارہ بجے شروع ہوا لیکن ان میں ایرانی تیل کی برآمد شامل نہیں ہے۔
ایران نے جولائی کے مہینے میں ہر روز تقریباً 30 لاکھ بیرل کروڈ آئل برآمد کیا تھا۔
اس وقت جو پابندیاں نافذ کی گئی ہیں ان میں امریکی ڈالروں کی خرید، دھاتوں کی تجارت، کوئلہ، تجارتی سافٹ ویئر اور موٹر سازی کا شعبہ شامل ہے۔
امریکہ نے ایران کے انرجی سیکٹر پر 180 دنوں کے بعد پابندیاں لگائے کا فیصلہ کیا ہے جن کا إطلاق 4 نومبر سے ہو جائے گا۔
ایرانی تیل پر پابندیاں لگنے سے پہلے ہی آج نیویارک کی برینٹ مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں 90 سینٹ فی بیرل کا اضافہ ہو گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ایران پر سخت ترین پابندیاں لگائی گئی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں لگیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی ملک ایران کے ساتھ لین دین کرے گا، وہ امریکہ کے ساتھ بزنس نہیں کر سکے گا۔
بہت سے یورپی ملکوں، چین اور بھارت نے ایران پر پابندیوں کی مخالفت کی ہے، لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ ملک ایرانی تیل خريدنا بند کر دیں۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران پر پابندیوں کے خلاف ہے لیکن وہ اپنے مفاد کے پیش نظر پر پابندیوں پر عمل کرے گا۔