بھارت کی الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال متنازعہ شہریت بل کے خلاف تقریر کرنے پر انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر کفیل خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کو دسمبر 2019 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف تقریر کرنے پر 29 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پہلے ان کے خلاف مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا اور پھر 10 فروری کو ان کی ضمانت منظور ہونے کے دو روز کے بعد انتہائی سخت قانون قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) لگا کر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت نے این ایس اے کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اس وقت ڈاکٹر کفیل متھرا کی جیل میں بند ہیں۔ جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی فیصلے کی نقل ان کو ملتی ہے وہ ڈاکٹر خان کو رہا کر دیں گے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کے معاملے کی مانند یہ معاملہ بھی عالمی سطح پر موضوع بحث بنا رہا۔
گزشتہ سال 13 دسمبر کو علیگڑھ میں ڈاکٹر کفیل کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی تھی اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی اور شہر کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر کی سربراہی میں بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ڈاکٹر کفیل کی پوری تقریر پڑھنے سے ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نے نفرت یا تشدد بھڑکانے کی کوشش کی یا ان کی تقریر علیگڑھ شہر کے امن و امان کے لیے خطرہ تھی۔
عدالت نے مزید کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضلعی مجسٹریٹ نے ان کی تقریر کے بعض حصوں کو منتخب کیا اور ان کی اصل نیت کو نظرانداز کر دیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ کفیل خان کی والدہ نزہت پروین کی درخواست پر سنایا ہے۔
کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں اس امید کا اظہار کیا کہ اترپردیش کی حکومت ڈاکٹر کفیل کو بغیر کسی تاخیر کے رہا کر دے گی۔
ڈاکٹر کفیل کی اہلیہ شبستہ خان کا کہنا ہے کہ ایک بے قصور شخص پر این ایس اے لگایا گیا اور سات ماہ سے اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے یہ سات مہینے کوئی واپس نہیں دلا سکتا۔
کفیل کے دیگر اہل خانہ نے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ آئندہ ایک نظیر بنے گا۔
سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے اور لوگ اپنے اپنے انداز میں فیصلے کی تشریح کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے متعدد کارکنوں نے بھی ڈاکٹر کفیل کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے ”ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر“ کے چیئرمین ڈاکٹر روی نائر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصلے پر اظہار مسرت کیا اور کہا کہ ڈاکٹر کفیل کو بہت پہلے رہا کر دیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کفیل نے بہت اذیتیں جھیلی ہیں۔ وہ پوری دنیا میں ایک اچھے ڈاکٹر کی علامت بن گئے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت ناانصافی کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک اور کارکن اویس سلطان خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف سیاسی بد نیتی کے تحت کارروائی کی گئی۔ گورکھپور کے سرکاری اسپتال میں بچوں کی اموات کا جو حادثہ ہوا تھا اس وقت کفیل خان نے لوگوں کی بڑی خدمت کی تھی۔
ڈاکٹر کفیل کے اہل خانہ نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرکے ان کے کیس پر جلد سماعت کی اپیل کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے 11 اگست کو الہ آباد ہائی کورٹ کو 15 روز کے اندر فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔
ڈاکٹر کفیل 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب گورکھپور کے سرکاری بی آر ڈی اسپتال میں آکسیجن سلنڈروں کی قلت کی وجہ سے 60 سے زائد بچوں کی موت ہو گئی تھی۔
اس وقت کفیل خان نے آکسیجن کا انتظام کر کے بہت سے بچوں کی جان بچائی تھی۔ لیکن جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسپتال کا دورہ کیا تو اس کے بعد کفیل خان کے خلاف کیس درج کرکے انہیں معطل کر دیا گیا اور گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ حالاں کہ وہ متعلقہ شعبے کے انچارج بھی نہیں تھے۔
لیکن گزشتہ سال ستمبر میں ریاستی حکومت کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا تھا۔
ریاستی حکومت کی جانب سے تاحال مذکورہ فیصلے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اس فیصلے کو چیلنج کر سکتی ہے۔
جبکہ روی نائر کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے ایسا کیا تو یہ معاملہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوگا۔
کفیل خان نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک خط پوسٹ کیا تھا جس میں انہوں نے متھرا جیل کی ابتر حالت کا تذکرہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ انہیں جس بیرک میں رکھا گیا ہے وہاں 150 قیدیوں کے لیے صرف ایک ٹوائلٹ ہے۔
انہوں نے مارچ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ انہیں کرونا کے خلاف جنگ میں اپنے تجربات کا استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔