رسائی کے لنکس

شہریت ترمیمی بل 'باپو' کے وعدے کی تکمیل ہے: بھارتی صدر


بھارتی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے صدر نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے تقسیم ہند کے بعد کہا تھا کہ مذہبی جبر کے شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارت میں پناہ دی جائے گی۔(فائل فوٹو)
بھارتی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے صدر نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے تقسیم ہند کے بعد کہا تھا کہ مذہبی جبر کے شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارت میں پناہ دی جائے گی۔(فائل فوٹو)

بھارت کے صدر رام ناتھ کوند نے بھارت کی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ ماہ منظور ہونے والے شہریت ترمیمی بل کو بھارت کے بانی مہاتما گاندھی کے وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے۔

جمعے کو بھارتی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے صدر نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے تقسیم ہند کے بعد کہا تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش جو 1947 میں مشرقی پاکستان تھا۔ وہاں سے مذہبی جبر کے شکار ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارت میں پناہ دی جائے گی۔

بھارتی صدر نے مزید کہا کہ اُنہیں خوشی ہے کہ بھارت کی پارلیمان نے مذکورہ بل کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کا وعدہ پورا کیا۔

بھارتی صدر کے اس بیان پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین نے زور، زور سے ڈیسک بجائے، جس پر بھارتی صدر کو اپنی تقریر روکنا پڑی۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر 'شیم، شیم' کے نعرے لگائے۔

بھارت میں بجٹ اجلاس سے قبل صدر کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ایک روایت ہے۔ تاہم ملک میں جاری متنازع شہریت بل کے تناظر میں اس خطاب کو اہم قرار دیا جا رہا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں نے روایات کے برخلاف، صدر کے خطاب کے دوران اگلی نشستوں پر بیٹھنے سے گریز کیا۔ سوائے سابق بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے بیشتر چیدہ رہنما پچھلی نشستوں پر بیٹھے رہے۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور دیگر وزرا نے بھی بھارتی صدر کا خطاب سنا۔

تاہم کانگریس رہنما سونیا گاندھی شہریت بل کے خلاف بطور احتجاج اپوزیشن ارکان سے اظہار یکجہتی کے لیے پچھلی نشست پر بیٹھی رہیں۔

بھارتی صدر نے تقریر کا آغاز حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے اور پالیسیوں سے کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ "میری حکومت کو 'نیا بھارت' بنانے کا مینڈیٹ ملا ہے اور وہ اسی سمت میں گامزن ہے۔"

صدر نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے جمہوریت کمزور اور ملکی نظم و نسق چلانے میں خلل پڑتا ہے۔ لہذٰا بات چیت کے ذریعے اختلافی اُمور طے ہونے چاہئیں۔

بھارت کے صدر کا بیان ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب جمعرات کو نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے باہر ہونے والے مظاہرے کے دوران ایک نوجوان نے مظاہرین پر گولیاں برسا دی تھیں۔ واقعے میں ایک طالب علم زخمی ہو گیا تھا۔

بھارت کے صدر نے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے ضمن میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھی سراہا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی اور خوش حالی میں اضافہ ہو گا۔

بھارتی صدر نے بابری مسجد کیس کے فیصلے پر اندرونِ ملک ردِ عمل کا بھی خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پورے ملک میں اس فیصلے کے بعد تحمل کا مظاہرہ کیا گیا، اسے وہ سراہتے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف گزشتہ ماہ سے مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ناقدین اس بل کو مسلمانوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے بھارت کی سیکولر اساس کے بھی منافی قرار دیتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG