بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف بھارتی ریاست راجستھان کی اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس سے قبل ریاست پنجاب اور کیرالہ نے بھی شہریت بل کے خلاف اسمبلی میں قرارداد پاس کی تھی۔
راجستھان میں حکمراں جماعت کانگریس کی جانب سے قرارداد ایوان میں پیش کی گئی۔ جس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بھارت بھر میں مظاہروں اور مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بننے والے شہریت بل کو واپس لیا جائے۔
قرارداد کی منظوری کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین نے شور شرابہ کیا اور شہریت بل کے حق میں نعرے لگائے۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان کی جانب سے منظور کیے گئے بل سے مذہب کے نام پر غیر قانونی پناہ گزینوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھارت کے نظریے اور آرٹیکل 14 کے بھی خلاف ہے۔
قرارداد کے مطابق بھارت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب مذہب کی بنیاد پر کسی قانون کو پارلیمان نے منظور کیا ہے۔
راجستھان اسمبلی نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) پر بھی سوال اُٹھائے ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ریاست آسام میں 19 لاکھ افراد کی شناخت کو این آر سی کے ذریعے مشکوک کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی ریاست کیرالہ نے سب سے پہلے شہریت بل کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کی تھی۔ اس کے بعد پنجاب نے بھی اسی نوعیت کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی تھی۔
بھارتی ریاست مغربی بنگال کی اسمبلی کا خصوصی اجلاس 27 جنوری کو طلب کیا گیا ہے۔ جس میں اس بل کے خلاف قرارداد منظور کیے جانے کا امکان ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے چند روز قبل بل کے خلاف حکم امتناع جاری نہیں کیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ مرکزی حکومت کو سنے بغیر حکم امتناع جاری نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو جواب داخل کرانے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دی تھی۔
متنازع بل کے خلاف بھارت بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پرتشدد واقعات میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
بل کے خلاف بھارت کے مختلف طبقات کا سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے بھی ایک بیان میں شہریت بل پر تنقید کی تھی۔
البتہ کئی روز سے جاری مظاہروں اور عالمی سطح پر ہونے والی تنقید کے باوجود بھارت کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت یہ بل واپس نہیں لیں گے۔
بھارت کے وزیر داخلہ اُمیت شاہ مختلف مواقعوں پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اس بل سے متعلق غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ تاہم حکومت کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔
شہریت بل ہے کیا؟
بھارت کی پارلیمان نے 12 دسمبر 2019 کو ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے 'مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے' چھ مذاہب کے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اس بل کو بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھارت کا سیکولر تشخص مسخ کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر بھارت کی نظریاتی اساس کو متاثر کر رہی ہے۔
مذکورہ بل کے خلاف بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت اتر پردیش، آسام اور دیگر ریاستوں میں پرتشدد ہنگاموں کے نتیجے میں درجنوں افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔